ہمارے ہاں کچھ دینی مدارس ہیں‘ جن میں درسِ نظامی کی تعلیم بھی ہے اور شعبۂ تحفیظ بھی قائم ہے، کچھ مدارس کی زمینیں اپنی خرید کر وقف کی ہوئی ہیں، اور مدارس بھی وقف ہیں، اور کچھ کرایہ کی عمارت میں قائم ہیں، ان کی نہ زمین وقف ہے اور نہ مدرسہ۔
ان دونوں قسم کے مدارس میں صدقہ، زکوٰۃ و عطیات بھی آتے ہیں،ا ور ان کے علاوہ تعلیمی اخراجات کے نام سے بچوں سے فیس بھی لی جاتی ہے، مدرسے کےاخراجات، اساتذہ کی تنخواہیں وغیرہ اسی (مجموعی)فنڈ سے پورے کیے جاتے ہیں، (زکوٰۃ کی باقاعدہ تملیک بھی کی جاتی ہے)۔
نیز بچوں سے فیس لینے کی وجہ یہ مجبوری ہے کہ دیہی علاقے میں صدقات و زکوٰۃ سےاخراجات پورے نہیں ہوپاتے۔
اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ (وقف اور غیر وقف دونوں قسم کے)مدرسے کا مالک جو مدرسے میں استاد کی حیثیت سے پڑھاتا بھی ہے، اور مدير بھی ہے (اہتمام کی ذمہ داری بھی سنبھالتا ہے)، اور اپنے اس عمل کی تنخواہ بھی لیتا ہے تو کیا وہ رقم جو فیس سے بچ جاتی ہے یہ مالک اسے اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتا ہے؟
اور وقف مدارس کے مدير اور غیر وقف کے مدير اور مالک کےلیے اس فیس کا ایک جیسا حکم ہے یا ان میں فرق ہے؟ یہ بھی واضح فرمادیجیے!
صورتِ مسئولہ میں جو مدارس مالکان کی طرف سے وقف نہیں کیے گئے، ان میں وہ فیس بھی لیتے ہیں، اور مدرسہ کے اخراجات پورے کرنے کے بعد زائد فنڈ وقف نہیں ہوتے، بلکہ منتظم اس کے مالک ہوتے ہیں، تو چوں کہ وہ مدارس ان کی ذاتی ملکیت ہیں اس لیے ان میں مدرسہ کے نام سے چندہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر مجبوراً مستحق طلباء جو تعلیمی فیس ادا کرنے سے قاصر ہوں، اور ان کےلیے چندہ کرنا ضروری ہو تو بجائے مدرسہ کےلیے چندہ کرنے کے‘ مخیر حضرات سے صراحت اور تعیین کے ساتھ مستحق طلباء کی فیس کے طور پر رقم وصول کی جائے،اس صورت میں وہ رقم مستحق طلباء کی ملکیت میں دے کر ان سے تعلیمی فیس وصول کرنا جائز ہے، ایسے مدارس میں جو رقم اخراجات سے بچ جائے گی وہ مدرسہ کے مالک کی ملکیت ہوگی، مالک کےلیے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے۔
لیکن جو مدارس موقوفہ ہیں، ان میں جو رقم تعلیمی اخراجات کی فیس کے عنوان سے وصول کی جاتی ہے وہ وقف مدرسہ کی آمدنی ہے، اسے صرف وقف کی ضروریات کی مد میں استعمال کرنا ضروری ہے، مدیر یا منتظم کےلیے اپنے استعمال میں لانا درست نہیں۔
لیکن محض فیس لینے پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس مدرسے میں تعاون کرنا درست نہیں، بلکہ اُس مدرسہ میں چندہ دینا درست نہیں جو کاروباری بنیاد پر قائم ہو، اور اس کی آمدنی منتظم کی ملکیت ہو، جیسا کہ پرائیویٹ اسکول اور بعض اسلامک اسکولوں میں ہوتا ہے کہ اس کی آمدنی منتظم کی ہوجاتی ہے۔
نیز مذکورہ وضاحت کی رو سے اگر وقف آمدنی میں سے کوئی رقم ابھی تک مدیر یا منتظم یا کسی اور نے ذاتی استعمال میں لائی ہو تو وہ ساری رقم واپس مدرسہ میں لوٹانا لازم ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."
(كتاب الدعوى، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، 8/ 509، ط:دار الکتب العلمية بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قال المصنف: والذي ترجح عندي لا. ليس للمتولي أخذ زيادة على ما قرر له الواقف أصلا ويجب صرف جميع ما يحصل من نماء وعوائد شرعية وعرفية لمصارف الوقف الشرعية،....لكن سيجيء في الوصايا ومر أيضا أن للمتولي أجر مثل عمله فتنبه.
مطلب فيما يأخذه المتولي من العوائد العرفية
(قوله: ويجب صرف إلخ) حاصل ما ذكره المصنف أنه سئل عن قرية موقوفة يريد المتولي أن يأخذ من أهاليها ما يدفعونه بسبب الوقف من العوائد العرفية من سمن ودجاج وغلال يأخذونها لمن يحفظ الزرع، ولمن يحضر تذريته فيدفع المتولي لهما منها يسيرا ويأخذ الباقي مع ما ذكر لنفسه زيادة على معلومه فأجاب: جميع ما تحصل من الوقف من نماء وغيره مما هو من تعليقات الوقف يصرف في مصارفه الشرعية كعمارته ومستحقيه اهـ ملخصا لكن أفتى في الخيرية بأنه إذا كان في ريع الوقف عوائد قديمة معهودة يتناولها الناظر بسعيه له طلبها لقول الأشباه عن إجارات الظهيرية والمعروف عرفا كالمشروط شرطا فهو صريح في استحقاقه ما جرت به العادة اهـ ملخصا.
مطلب في تحرير حكم ما يأخذه المتولي من عوائد
قلت: ويؤيده ما في البحر من جواز أخذ الإمام فاضل الشمع في رمضان إذا جرت به العادة وقد ظهر لي أنه لا ينافي ما ذكره المصنف لأن هذا في المتعارف أخذه من ريع الوقف بأن تعورف مثلا أن هذا الوقف يأخذه متوليه عشر ريعه فحيث كان قديما يجعل كأن الواقف شرطه له، وما ذكره المصنف فيما يأخذه المتولي من أهل القرية كالذي يهدى له من دجاج وسمن، فإن ذلك رشوة، وكالذي يأخذه من الغلال المذكورة التي جعلت للحافظ فافهم. لكن الذي يظهر أن الغلال إذا كانت من ريع الوقف، يجب صرفها في مصارف الوقف.........قوله: قلت لكن إلخ) استدراك على قول المصنف في فتاواه: ليس للمتولي أخذ زيادة على ما قرره له الواقف. قلت: والجواب أن كلام المصنف فيمن شرط له الواقف شيئا معينا: وما سيجيء في الوصايا ومر أيضا عقب مسألة الجامكية فيمن نصبه القاضي، ولم يشرط له الواقف كما قدمناه، لكن قدمنا أيضا عن أنفع الوسائل بحثا أن الأول لو عين له الواقف أقل من أجر المثل، فللقاضي أن يكمل له أجر المثل بطلبه فهذا مقيد لإطلاق المصنف كما قدمناه هناك."
(کتاب الوقف، مطلب فيما يأخذه المتولي من العوائد العرفية، 4/ 450، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"(وجاز جعل غلة الوقف) أو الولاية (لنفسه عند الثاني) وعليه الفتوى ...
مطلب في اشتراط الغلة لنفسه (قوله: وجاز جعل غلة الوقف لنفسه إلخ) أي كلها أو بعضها وعند محمد لا يجوز بناء على اشتراطه التسليم إلى متول وقيل هي مسألة مبتدأة أي غير مبنية على ذلك وهو أوجه."
(كتاب الوقف، مطلب في اشتراط الغلة لنفسه، 4/ 384، ط:سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولو غصبها من الواقف أو من واليها غاصب فعليه أن يردها إلى الواقف فإن أبى وثبت غصبه عند القاضي حبسه حتى رد."
(کتاب الوقف، باب في غصب الوقف، 2/ 421، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
کفایت المفتی میں ہے:
”(جواب ۹۶)عید گاہ اوقاف عامہ میں سے ہے اور وقف رہنے میں اس پر مسجد کے احکام جاری ہیں۔ پس اس کو عبادت عامہ کےلئے استعمال توکیا جا سکتا ہے۔ لیکن ذاتی منافع کے لئے کوئی اس پر قبضہ نہیں رکھ سکتا۔ اگر کسی غاصب نے اس پر جبراًً قبضہ کرلیا ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ اس کے قبضہ سے نکال لیں اور غرض صحیح میں استعمال کریں۔ غاصب اوقاف سے اوقاف کو واپس لینے کا حکم کتب فقہ میں مذکور ہے۔ اورگزشتہ زمانے میں غاصب نے جس قدر روپیہ وقف کے ذریعہ سے حاصل کیا ہے وہ اس سے واپس لیا جائےگا اور وقف کے کام میں خرچ کیا جائے گا۔“
(کتاب الوقف، 7/ 108، ط:دار الاشاعت کراچی)
وفیہ أيضا:
”(جواب ۱۷۸)(۱)ہاں فقراء کی امداد کی مد سے واقف کے حاجتمند اقارب واولاد کو دینا جائز ہے۔
(۲)عورت بھی متولی ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے نائب سے وقف کا انتظام کراسکے۔
(۳)متولی اوقاف کی آمدنی سے حق السعی لے سکتا ہے جب کہ واقف نے مقرر کیا ہو یا حاکم کی اجازت سے۔“
(کتاب الوقف، 7/ 172، ط:دار الاشاعت کراچی)
امداد الفتاویٰ میں ہے:
”حکم فیس مدارس:۔
سوال (۳۸۰) درمدارس این دیار از طالبان فیس گرفتہ می شود آیا از طفلان نا بالغ کہ یتیماں نیز در آں موجود اند بشرط اجازت ولی فیس گرفتن جائز ست یا نہ؟
الجواب، فیس اجرت ست اجرت عمل کہ نفعش بہ نا بالغ عائد باشد از مال او گرفتن جائز است باذن ولی۔“
(کتاب الاجارۃ، الصراح فی اجرۃ النکاح، مدارس کی فیس کا حکم، ج:3، ص394، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
”وقف کی نیت کے بغیر اپنی مملوکہ زمین میں مدرسہ قائم کرنا
سوال(۹۴۴) ایک شخص نے اپنی ملوکہ زمین میں جو اس کے مکان کے سامنے افتادہ ہے اور صحن سے پیوستہ ہے چندے کے روپے سے مدرسہ تعمیر کرایا اور سترہ سال تک خود اس میں درس عربی دیا، غرض وہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہوگیا لیکن بانی نے کوئی نیت وقف زمین مملوکہ کی نہیں کی، نہ زبان سے کچھ کہا، پس اس صورت میں وقف صحیح ہوگیا یا نہیں؟
الجواب: اس صورت میں وہ زمین مملوکہ وقف نہیں ہوئیكما في الدر المختار: وركنه الألفاظ الخاصة كأرضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر الخ.“
(وقف کا بیان، ج:14، ص:130، ط:دارالاشاعت کراچی)
فقط واللہ اَعلم
فتوی نمبر : 144602100076
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن