بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف شدہ زمین پرواقفین کے مقررکردہ متولی کوہی تولیت کا حق حاصل ہے


سوال

دو شخص پراپرٹی کے کاروبار میں شریک تھے،دونوں نے باہمی رضامندی  سے 10 ہزار مربع فٹ زمین مسجد کے لیے وقف کرکے ایک مولوی صاحب کو متولی بناکر ان کے  حوالے کردی، اور اس مولوی صاحب نےان دونوں سے اس وقف شدہ زمین سے متصل مزید 10 ہزار مربع فٹ زمین مدرسہ کے لیے خرید لی،ان دونوں  شریکوں میں سے ایک نے مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کے انتقال(کاغذات  میں نام کی منتقلی )کاخرچہ بھی اپنے ذمہ لے لیا،بعد ازاں  اس شریک کا مذکورہ خرچہ کی ادائیگی سے پہلے انتقال ہوگیا،اب اس کے بیٹے وقف شدہ زمین مذکورہ مولوی صاحب کو دینے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم  نے یہ زمین اپنے جاننے والے ایک قریبی مولوی کو دی ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ :

1.      کیا وقف شدہ زمین مرحوم کے ترکہ میں شامل ہےاور اس  میں  اس کےورثاء کوتصرف کا حق حاصل ہے؟

2.      مرحوم نے اپنے ذمہ انتقال کا جو خرچہ لیا تھا کیا وہ مرحوم کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا یا نہیں؟

3.      وقف شدہ زمین پر تولیت کا حق دار پہلے مولوی صاحب ہے یا دوسرے؟

وضاحت:واقفین میں سے جو حیات ہیں ،وہ پہلے مولوی صاحب کو متولی برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔

جواب

1۔واضح رہے کہ وقف کرنے سے وقف کردہ چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں آجاتی ہے،بعد ازاں واقف یا اس کے ورثاء کو وقف شدہ چیز میں مالکانہ تصرفات کاحق نہیں رہتا؛لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی مرحوم کے ورثاء کو اس میں مالکانہ تصرف کا حق حاصل ہے۔

2۔اگر مرحوم نے مذکورہ  خرچہ  کی ادائیگی کی وصیت کی ہوتو ایسی صورت میں  یہ وصیت مرحوم کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے نافذہوگی اور ورثاءپر ترکہ کے تہائی حصہ سے اس  کی ادائیگی لازم ہوگی،اور اگر مرحوم نے  اس کی وصیت نہ کی ہو تو ایسی صورت میں ورثاء پر مذکورہ خرچہ کی  ادائیگی لازم نہیں ،البتہ اگر وہ اپنی  رضامندی سے اد کرنا چاہیں تو ادا کرسکتے ہیں۔

3۔صورتِ مسئولہ میں جب واقفین نے  مذکورہ زمین وقف کرکےباہمی رضامندی سے  پہلے مولوی  صاحب کو متولی بنا یا اور یہ زمین ان کےحوالے کردی تو ایسی صورت میں  پہلےمولوی صاحب  ہی اس کی تولیت کے حق دار  ہیں،واقفین کا مقرر کردہ متولی( پہلے مولوی صاحب) اگر نا اہل نہ ہو یعنی اپنی ذمہ داری درست طریقے سے سرانجام دے رہا ہو،اور ان سے کوئی خیانت  بھی ظاہر  نہ ہوئی ہو اور  وہ اپنے کام سے عاجز  بھی نہ ہوں تو ایسی صورت میں ان کو واقفین کے ورثاء  معزول کرکے کسی اور کو اس کی جگہ متولی نہیں بناسکتے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمه فعندهما زوال العين عن ملكه إلى الله تعالى وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - حكمه صيرورة العين محبوسة على ملكه بحيث لا تقبل النقل عن ملك إلى ملك والتصدق بالغلة المعدومة متى صح الوقف بأن قال: جعلت أرضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة أو أوصيت بها بعد موتي فإنه يصح حتى لا يملك بيعه ولا يورث عنه لكن ينظر إن خرج من الثلث والوقف فيه بقدر الثلث كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الوقف،الباب الأول في تعريف الوقف وركنه وسببه وحكمه وشرائطه والألفاظ التي يتم بها،2/352،ط:دارالفکر)

الدر مع الرد میں ہے:

"(جعل) الواقف (الولاية لنفسه جاز) بالإجماع، وكذا لو لم يشترط لأحد فالولاية له عند الثاني. وهو ظاهر المذهب نهر، خلافا لما نقله المصنف، ثم لوصيه إن كان وإلا فللحاكم فتاوى ابن نجيم وقارئ الهداية وسيجيء،(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف۔۔۔(غير مأمون) أو عاجزا أو ظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح .(وإن شرط عدم نزعه) أو أن لا ينزعه قاض ولا سلطان لمخالفته لحكم الشرع فيبطل كالوصي ،فلو مأمونا لم تصح تولية غيره أشباه.

وفي الرد: مطلب في عزل الناظر (قوله: فلو مأمونا لم تصح تولية غيره) قال في شرح الملتقى إلى الأشباه لا يجوز للقاضي عزل الناظر المشروط له النظر بلا خيانة، ولو عزله لا يصير الثاني متوليا، ويصح عزل الناظر بلا خيانة لو منصوب القاضي أي لا الواقف وليس للقاضي الثاني أن يعيده وإن عزله الأول بلا سبب لحمل أمره على السداد إلا أن تثبت أهليته اه.وأما الواقف فله عزل الناظر مطلقا به يفتي."

(کتاب الوقف، 4/379۔382، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں