بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف کی زمین طویل مدت کے لیے کرایہ پر دینے کاحکم


سوال

 زیدہمارا ایک کرائے دار ہے ،زید کو تقریباً اکتالیس سال قبل ایک وسیع کمرشل پلاٹ ہماری انجمن نے صرف ڈھائی سو روپے ماہانہ کرائے پر دیا تھا ،اس پلاٹ پر زید اپنی کلینک چلا رہا ہے ،کچھ وقت کے بعد زید نے انجمن کی اجازت کے بغیر انجمن کے پلاٹ پر چند دوکا نیں تعمیر کر اکر مختلف کرائے داروں کو رینٹ پر دے دی ،ان دوکانوں سے زید ہزاروں روپے کرایہ خو د وصول کر رہا ہے ،جب کہ مسجد ومدرسہ کی انجمن کو صرف ڈھائی سو روپے ماہانہ کرایہ ادا کر رہا ہے ،زید سے جب انجمن مسجدومدرسہ کمیٹی کے ارکان نے رابطہ کیا تو زید کا کہنا ہے کہ میں نے اس وقت کے انجمن کے ارکان سے رینٹ پر لیا تھا، زید کا کہنا ہے کہ میرے پاس ایک اسٹامپ پپپر ہے جس پر اس وقت کی کمیٹی انجمن کے ارکان نے میرے ساتھ معاہدہ یا ایگر یمنٹ کیا تھا کہ وہ اس پلاٹ ماہانہ ڈھائی سو روپے کرائے میں اضافہ کا کوئی تقاضہ نہیں کریں گے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ زید کی درخواست جو اس نے انجمن کو پلاٹ کرائے پر حاصل کرنے کے لیے دی اس درخواست پر دستخط کرنے والے فوت ہو چکے ہیں۔

درج ذیل چندنکات پر مکمل رہنمائی اور فتوٰی کی ضرورت ہے:

(1) زیدہمارا کرائے دار ہے ،لیکن زید نے کرائے دار ہو کر اُس وقت کی انجمن کے ارکان سے اپنی شرائط کے تحت اسٹامپ پر قبولیت نامہ تحریر کر دیا ہے ،اس اسٹامپ پر جاری انجمن کے وستخط کرنے والے ممبر ان انتقال کر چکے ہیں ،اس اسٹامپ پر مورخہ (1981-03-09 ) کی تاریخ درج ہے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا اس اسٹامپ کی کوئی شرعی وقانونی حیثیت ہے ؟اور موجودہ انجمن اس اسٹامپ پیپر پر ہونے والے ایگر یمنٹ پر عمل کرنے کی پابند ہے یا نہیں ،جب کہ زید اس مسجد مدرسہ (انجمن کے اس کمرشل پلاٹ ) سے ہزاروں روپے آمدنی حاصل کر رہا ہے، جب کہ مسجد مدرسہ کی نگرانی کرنے والی انجمن کو صرف کرائے کی مد میں ڈھائی سو روپے ماہانہ ادا کر تا ہے ،زید سال میں ایک مرتبہ رمضان المبارک میں مسجد ومدرسہ کے لیے پنتالیس ہزار روپے عطیہ کے طور پر دیتا ہے ،آیا یہ کرائے دار ہوتے ہوئے اپنی شرائط پر انجمن کے ارکان سے اپنی مرضی کا قبولیت نامہ لکھوا سکتا ہے ؟اس تمام تر صورتحال میں مسجد مدرسہ کی انجمن کیا کر ے؟زید کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ؟آیازید کا یہ تمام عمل شرعی طور پر درست ہے ؟زید ڈھائی سو  اوپر کرایہ بڑھانے کے لیے رضامند نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ متولی  (کمیٹی )کے لیے جائز نہیں کہ وقف زمین کو اتنی طویل مدت کے لیے کرایہ پر دےجس سے وقف کا اصل مقصد فوت ہوجائے اور وقف زمین ضائع ہونے کا اندیشہ ہو ،لہذا صورتِ مسئولہ میں سابقہ کا کمیٹی کا مسجد کی وقف زمین کو مذکورہ شخص کو اتنی طویل مدت کے لئے کرایہ پر دینا وقف کی مصالح کے خلاف ہے، لہذا وقف کا اصل مقصد فوت ہوجانے کی بنا پر موجودہ کمیٹی مذکورہ شخص سے کرایہ داری کا  سابقہ معاملہ ختم کرنے کی حق دارہے ۔اور اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں سے رابطہ کرتکے قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے، البتہ اگر کمیٹی زید  کے ساتھ موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق جدید معاہدہ کرناچاہے تو کرسکتی ہے۔ 

نیز مذکورہ شخص نے مذکورہ زمین پر کمیٹی کی اجازت کے بغیر جواپنے لیے دکان تعمیر کی تو وہ دکانیں بھی وقف شمار ہوں گی ،البتہ  مذکورہ شخص کو اس دکان کی تعمیر پر خرچ کی گئی تعمیراتی لاگت ملے گی۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه ‌أمر ‌بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه) أي مستحق القلع فتقوم بدونهما ومع أحدهما مستحق القلع فيضمن الفضل.

قوله ومن بنى) أي بغير تراب تلك الأرض وإلا فالبناء لرب الأرض،؛ لأنه لو أمر بنقضه يصير ترابا كما كان در منتقى في (قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق."

(كتاب الغصب ،مطلب في رد المغصوب ،ج:6،ص:194،ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"فصل يراعى شرط الواقف في إجارته فلم يزد القيم بل القاضي لأن له ولاية النظر لفقير وغائب وميت (فلو أهمل الواقف مدتها قيل تطلق) الزيادة للقيم (وقيل تقيد بسنة) مطلقا (وبها) أي بالسنة (يفتى في الدار وبثلاث سنين في الأرض) إلا إذا كانت المصلحة بخلاف ذلك وهذا مما يختلف زمانا وموضعا وفي البزازية: لو احتيج لذلك يعقد عقودا فيكون العقد الأول لازما لأنه ناجز والثاني لا لأنه مضاف. قلت: لكن قال أبو جعفر الفتوى على إبطال الإجارة الطويلة ولو بعقود ذكره الكرماني في الباب التاسع عشر وأقره قدري أفندي.

واعلم أن المسألة فيها ثمانية أقوال ذكرها العلامة قنالي زاده في رسالته أحدها: قول المتقدمين عدم تقدير الإجارة بمدة ورجحه في أنفع الوسائل والمفتى به ما ذكره المصنف خوفا من ضياع الوقف كما علمت.(قوله: إلا إذا كانت المصلحة بخلاف ذلك) هذا أحد الأقوال الثمانية، وهو ما ذكره الصدر الشهيد من أن المختار أنه لا يجوز في الدور أكثر من سنة إلا إذا كانت المصلحة في الجواز، وفي الضياع يجوز إلى ثلاث سنين إلا إذا كانت المصلحة في عدم الجواز وهذا أمر يختلف باختلاف المواضع واختلاف الزمان اهـ وعزاه المصنف إلى أنفع الوسائل وأشار إلى أنه لا يخالف ما في المتن لأن أصل عدول المتأخرين عن قول المتقدمين بعدم التوقيت إلى التوقيت إنما هو بسبب الخوف على الوقف فإذا كانت المصلحة الزيادة أو النقص اتبعت، وهو توفيق حسن."

(کتاب الوقف ،فصل فی اجارہ الواقف،ج:4،ص:400-401،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403102004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں