بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف شدہ زمین واپس لینا


سوال

زید نےعمر کو زمین دے دی تمام تر انتقالات اور کاغذات کے ساتھ، عمر کے پاس  تمام کاغذات موجود ہیں، اب زید کے فوت ہو جانے کے بعد اس کے بیٹے عمر سے وہ زمین واپس کرنے کا کہہ رہے ہیں،حالانکہ یہ زمین انہوں نے مسجد اور مدرسہ کے لیے وقف کر کے دی تھی؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ زمین واقف کی اولاد واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقف نے زمین کو مسجد اور مدرسہ کے  لیے وقف کر دیا تھا اور بطور متولی کے مذکورہ زمین عمر کو دی تھی تو اس صورت میں زید یعنی واقف کی اولاد کا دوبارہ سے واپس مانگنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ وہ زمین تا قیامت مسجد اور مدرسہ کے  لیے وقف رہے گی ۔مذکورہ زمین خود عمر کی بھی ملکیت نہیں ہے،  بلکہ اس کی حیثیت اس میں صرف وقف کے متولی کی ہے۔ 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

«وأما عزله فقدمنا أن أبا يوسف جوز عزله ‌للواقف بغير جنحة وشرط لأنه وكيله وخالفه محمد وأما عزل القاضي له فشرطه أن يكون بجنحة قال في الإسعاف ولو جعلها للموقوف عليه ولم يكن أهلا أخرجه القاضي وإن كانت الغلة له وولي عينه مأمونا لأن مرجع الوقف للمساكين وغير المأمون لا يؤمن عليه من تخريب أو بيع فيمتنع وصوله إليهم ولو أوصى الواقف إلى جماعة وكان بعضهم غير مأمون بدله القاضي بمأمون وإن رأى إقامة واحد منهم مقامه فلا بأس به. اهـ»."

(5/ 245 ط: سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري :

"قدمنا أن الولاية ‌للواقف ثابتة مدة حياته وإن لم يشترطها وأن له عزل المتولي وأن من ولاه لا يكون له النظر بعد موته إلا بالشرط على قول أبي يوسف ولو ‌نصب الواقف عند موته وصيا ولم يذكر من أمور الواقف شيئا تكون ولاية الوقف إلى الوصي ولو جعله وصيا في أمر الوقف فقط كان وصيا في الأشياء كلها عند أبي حنيفة ومحمد خلافا لأبي يوسف وهلال

(قوله: قدمنا) أي قبل ثلاثة أوراق (قوله: وقال أبو يوسف يجوز) قال في أنفع الوسائل: وينبغي أن يكون الفتوى عليه إما لأنه أخذ بالاستحسان، و الأصل أنه مقدم على القياس إلا في مسائل ليس هذه منها."

(5/ 249 ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں