بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

واقعہ معراج کس سن میں پیش آیا، اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کتنی تھی؟


سوال

واقعہ معراج کے وقت آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کتنی تھی، اور کس نبوی سن میں ہوئی؟

جواب

اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور اہل سیر کی آراء مختلف ہیں،بعض نے  ربیع الاول، بعض نے ربیع الآخر، بعض نے رجب، بعض نے رمضان،  بعض نے شوال کے مہینے میں معراج کا واقعہ ہونے کا ذکر کیا ہے،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی تعیین کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ   میں معراج ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں، البتہ  حتمی طور پر معراج کی تاریخ   متعین نہیں، اس لیے معراج کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کتنی تھی، اور کس سن میں ہوا یقینی طور پر کہنا ممکن نہیں۔

المواھب اللدنیةبالمنح المحمدیہ میں ہے :

"وأما ليلة الإسراء فلم يأت فى أرجحية العمل فيها حديث صحيح ولا ضعيف. ولذلك لم يعينها النبى- صلى الله عليه وسلم- لأصحابه، ولا عينها أحد من الصحابة بإسناد صحيح."

(المقصد الخامس الاسرا والمعراج :ج2ص431 ط  التوفيقية القاهرة)

فتح الباری میں ہے :

"فإن في ذلك اختلافا كثيرا يزيد على عشرة أقوال منها ما حكاه ابن الجوزي أنه كان قبل الهجرة بثمانية أشهر وقيل بستة أشهر۔۔۔وحكى ابن حزم أنه كان في رجب سنة اثنتي عشرة من النبوة۔۔۔ و قيل باحدعشرشهراجزم به ابراهيم الحربي حيث قال كان في ربيع الآخر قبل الهجرة بسنةو قیل بسنة و خمسة اشهرقاله السدي واخرجه من طريقه الطبري والبيهقي فعلي هذا كان في شوال أو في رمضان۔۔۔ومن ربيع الأول وبه جزم الواقدي۔۔۔وعند بن سعد عن ابن أبي سبرة أنه كان في رمضان قبل الهجرة بثمانية عشر شهرا وقيل كان في رجب حكاه ابن عبد البر وجزم به النووي."

(كتاب المناقب  باب المعراج :ج9:ص257 :ط دارالكتب العلميه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي أي الصلاة الكاملة فرض عين على كل مكلف)بالإجماع. فرضت في الإسراء ليلة السبت سابع عشر رمضان قبل الهجرة بسنة ونصف

(قوله: فرضت في الإسراء إلخ) نقله أيضا الشيخ إسماعيل في الأحكام شرح درر الحكام، ثم قال: وحاصل ما ذكره الشيخ محمد البكري نفعنا الله تعالى ببركاته في الروضة الزهراء أنهم اختلفوا في أي سنة كان الإسراء بعد اتفاقهم على أنه كان بعد البعثة. فجزم جمع بأنه كان قبل الهجرة بسنة، ونقل ابن حزم الإجماع عليه، وقيل بخمس سنين، ثم اختلفوا في أي الشهور كان؟ فجزم ابن الأثير والنووي في فتاويه بأنه كان في ربيع الأول. قال النووي: ليلة سبع وعشرين، وقيل في ربيع الآخر، وقيل في رجب وجزم به النووي في الروضة تبعا للرافعي، وقيل في شوال. وجزم الحافظ عبد الغني المقدسي في سيرته بأنه ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل الأمصار. اهـ".

(‌‌كتاب الصلاة،ج:1،ص:352،ط:دار الفكر-بيروت)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"27رجب کو یقینی طور پر شب معراج قرار دینا سراسر غلط ہے ،اس میں کئی قسم کے بہت سے اختلافات ہیں ،صرف تاریخ میں نہیں بلکہ مبداء میں ،سال  میں ،مہینے میں ،تاریخ میں ،دن میں  ہر ایک  میں کئی قسم کے اختلافات ہیں ۔"

(تحقيق شب معراج :ج:10 ،ص:70، ط:الحجازکراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں