بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف زمین پرعارضی مسجد بنانا اور پھر اس کو ختم کرنا


سوال

ہم نے13مرلےپلاٹ مسجدکےلیےخریدااور مئی2018میں بجانب مشرق تین مرلوں پرعارضی (کمرہ )مسجدبنائی ،اورباقاعدگی کےساتھ اذان ،باجماعت نمازاورتراویح اداہوتی رہی ،صرف جمعۃ المبارک کی نمازابھی تک شروع نہیں کی گئی تھی،امام بھی مقررہواہے،چوں کہ مذکورہ کمرہ جوکہ ابتدا ہی سے(متولی نے)عارضی نیت سےبندوبست کیاتھا،اورمغرب کی جانب مسجدکے مین ھال کےلیےالگ جگہ چھوڑدی تھی،وہاں اب کھلی جگہ پرتراویح اداکی جاتی ہے،یعنی جوکچھ بھی کیاگیاپہلےسےطےشدہ تھاکہ یہ سب کچھ عارضی ہے۔

نوٹ:سائل کا کہناہے  کہ  یہاں  پرمسجدبنانا  شروع  سے  ہمارا ارادہ نہیں، بلکہ مسجد کےلیےہم نےبڑی  جگہ کاانتخاب کیا تھا ،لیکن چوں کہ ہمیں عارضی جگہ بنانے کی ضرورت تھی؛  اس لیے ہم نے یہ تعمیرکی اس لیے مذکورہ عارضی کمرے کے بنیادیں وغیرہ کچھ بھی ہم نے نہیں رکھی تھیں۔

1:اب  سوال  یہ  ہے کہ  موجودہ  عارضی   جگہ  (جس میں پانچ سال باجماعت نمازاداہوتی رہی)پرباتھ روم یاکچن وغیرہ بنانادرست ہے؟

2:نئئ مسجدکی تعمیرکےدوران اس  پرانی مسجدکوشہید کرناپڑےگا،اسی طرح نماز اوراذان وغیرہ کاتسلسل بھی برقرارنہیں رکھاجاسکتاہے،ورنہ تعمیرمیں مسائل اوررُکاوٹیں پیداہوجائیں گی،توکیااس دوران نماز،اذان اورتراویح کاتسلسل ترک کرنےمیں کوئی حرج تونہیں ؟

3:مسجدابراہیم خلیل اللہ عوام الناس کےچندوں سےتعمیرہوئی ہے اورچندےکاانتظام متولی  نےکیاہے،مسجدکی کمیٹی بھی متولی نےہی بنائی، لیکن کمیٹی کےآٹھ افرادتعمیرکےسلسلےمیں مختلف آراء رکھتےہیں ،کوئی دکان کامشورہ،کوئی تہ خانہ کا،کوئی ڈبل گیلری کامشورہ بل کہ ہرکوئی اپنی رائےکومسلط کرناچاہتاہے،کیااتفاقِ رائےکےلیےمتولی کی رائےمعتبرہوسکتی ہے؟تاکہ وہ بطورِاحسن تعمیرشروع کرے۔

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں اگرمتولی نے  مذکورہ کمرے  پرعارضی مسجد بنائی تھی ،اوریہ لوگوں سے بھی کہا تھا ،توایسی صورت میں مذکورہ جگہ شرعی  مسجد کےحکم میں نہیں ہوگی ،لہذا دوسری جگہ مسجد بنانےکے صورت میں مذکورہ تعمیر ختم کرکے اس جگہ پر مسجد کی ضرورت کےلیے ددسری چیز  تعمیرکرنا درست ہے، اگرچہ مسلسل  باقاعدگی کے ساتھ اذان ،باجماعت نماز اورتراویح اداہوتی رہی ۔

2: نیزچوں کہ یہ شرعی مسجد کے حکم میں نہیں ہے،لِہٰذاتعمیری مصالح کےبنیاد پرنمازوں کوموقوف رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

3:نیز اگرواقف  خود موجود نہ  ہو ،اور نہ  ہی  اس  کی  طرف  سے تعمیر کے حوالے سے کوئی وصیت  ہو تو ایسی  صورت  میں  مسجد کے انتظامی  مسائل  میں  متولی  کی رائے کو ترجیح  دینا  زیادہ  مناسب  ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"فأما ركنه فالألفاظ الخاصة الدالة عليه كذا في البحر الرائق."

(کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریف الوقف ورکنہ وسببہ،ج:2،ص:352،ط:المطبعۃ الکبریٰ)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"رجل له أرض ساحة لابناء فیھا  أمرقوماّ أن يصلوا فيها باالجماعة ،فهذا علي ثلاثة أوجه ۔۔۔وأماإن وقت الأمر بااليوم أو الشهر أو السنه ففي هذاالوجه لاتصيرالساحة مسجداّ ولومات يورث عنه."

(کتاب الوقف،الفصل الحادی والعشرون فی المساجد،ج:5،ص:570/ 571،ط:قدیمی)

کفایت المفتی میں ہے:

"اگرواقف کوئی وصیت کرگیاہواورکسی شخص یاجماعت کےسپردیہ کام کرگیاہوتواس کی وصیت وھدایت کی تعمیل کرنی چاہیے،اگرکوئی وصیت نہ ہوتوپھرجوشخص حسبِ قاعدہ متولی قرارپائےگا،مرمت،وتعمیروعزل ونصبِ خدام وغیرہ تمام انتظامات اس کی رائےکےموافق ہوں گے۔"

(ج:7،ص:186،ط:داراشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں