بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

(س ۔ا۔ق ) نے(2006)میں اپنامکان بغیرکسی دنیوی لالچ کےصرف رضائےالہی کی خاطرمعاشرےکےمتوسط طبقہ کےبچوں کوکم فیس پراچھی دینی ودنیاوی تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے وقف کرنےکاارادہ کیا اور پھر بارہا اس کااعلان بھی کیا کہ میں نے یہ عمارت فی سبیل اللہ وقف کردی ہے ،اوراس عمارت کو اپنے ذاتی کام میں   لانے یا فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے،اس اعلان کو سننے والے بہت سے گواہان موجود ہیں اور(2006)ہی میں  '۔۔۔۔'کےنام سے اسکول بھی قائم ہوگیا،جس میں اس وقت سے اب تک پڑھائی چل رہی ہےاورلوگوں نے تعمیرکے لیے  اس میں چندہ بھی  دیاتھا۔اب( س۔ا۔ق) نے اسکول ختم کرکے  اس مکان کو فروخت کرنے کافیصہ کرلیاہےتوکیااب وہ اس مکان کے مالک ہیں؟اور کیا وہ اب اس مکان کو فروخت  کرنے،یااس کی فروخت سے حاصل ہونےوالی رقم کواپنے،یااپنے خاندان کے استعمال میں لاسکتےہیں؟اور (س۔ا۔ق)چندہ کی رقم کے '۔۔۔۔'  اسکول کی کمیٹی کوواپس دینےکے پابندہےیانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ   میں جب مذکورہ شخص نے عمارت وقف کردی ہے اور اس کی تعمیر میں لوگوں سے چندہ بھی لیا ہے تو اس عمارت سے اس کی ملکیت ختم ہوگئی ہے، اب اس کے لیے یہ عمارت بیچنا  اور اسے اپنے یا کسی دوسرے کے ( وقف کے خلاف ذاتی ) استعمال میں لانا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

 '' ثم إن أبا يوسف يقول يصير وقفا بمجرد القول لأنه بمنزلة الإعتاق عنده، وعليه الفتوى .''

(كتاب الوقف ، ج 4 ،ص 338 ،ط :سعید )

الدر مع الردمیں ہے:

'' (فاذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)

قوله: ' لا يملك  'أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه .''

(الدر مع الرد  ،کتاب الوقف ،ج 4 ، ص 352، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

'' لا يجوز الرجوع عن الوقف.'' 

(کتاب الوقف، ج 4، ص 459، ط:سعید)

تنویرالابصارمیں ہے:

'' یفتی بالضمان فی غصب عقارالوقف،وغصب منافعه.''

(رد المحتار، کتاب  الوقف ،ج4، ص 408، ط: سعید)

درالمختارمیں ہے:

'' فلایجوزله ابطاله ولایورث عنه ،وعلیه الفتوی .''

(رد المحتار، کتاب الوقف، ج4، ص 339، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں