بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف شدہ زمین کے تبادلہ کرنے کا حکم


سوال

ہم نےمدرسہ کے پیسوں (رقم) سےبنات کے مدرسے کے لیے ایک پلاٹ خریدا،لیکن کچھ عرصہ بعد جب چچااور والد جائیداد تقسیم کرنے لگے، تواس مدرسہ کی زمین کو بھی، اپنی جائیداد کے ساتھ تقسیم کردیا، اور اس کے بدلے میں دوسری جگہ شہر سے دور ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پلاٹ مدرسے کو دے دیا،اب پوچھنایہ ہے کہ:

1۔یہ تبادلہ شرعاًجائز ہے یانہیں ؟

2۔جائز نہ ہونے کی صورت میں اس کا متبادل کیا حکم  ہوگا؟

3۔مذکورہ زمین کو ہم نے تین سال تک ذاتی طور  پراستعمال کیاہے،اس کا کیا کفارہ ہے؟

4۔دادا اور چچاکا اس طرح تقسیم کرنے سے ان کا کیا حکم ہےیعنی آخرت میں ان کی خلاصی کیسے ممکن ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ موقوفہ زمین  قیامت تک   واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو بالعوض، یا بلا عوض   مالک بنانا،  یا  وراثت میں تقسیم کرنا یا موقوفہ زمین کا  تبادلہ کرنا  از روئے شرع جائز نہیں ہوتا۔

1۔ لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے والد اور چچاکامدرسہ کے پیسوں سے مدرسہ  کےلیے خریدی گئی زمین کووراثت میں تقسیم کرنا اور اس کے بدلے دوسری زمین خرید کر مدرسے کو دینا جائز نہیں تھا۔

2۔مذکورہ زمین جو والد اور چچانے مدرسہ کے پیسوں سے خریدی تھی وہ ہی  بدستور مدرسہ کے لیے ہی رہے گی ،وراثت میں تقسیم  نہیں کی جائے گی۔

3۔ تو بہ واستغفارکیا جائے اورمذکورہ زمین کے استعمال کے بقدر رقم مدرسہ میں جمع کرادے۔

4۔مرحومین کے لیے  توبہ واستعفار کیا جائے اور مرحومین کی طرف سے نیک اعمال كركے  ایصال ثواب کیاجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فإذا تم ولزم لایملك ولایملك ولایعار ولایرهن". (الدر )

"قوله: لایملك أي لایکون مملوکا لصاحبه، ولایملك: أي لایقبل التملیك لغیره بالبیع ونحوه، لاستحالة تملیك الخارج عن ملکه، ولایعار ولایرهن لاقتضائهما الملك."

(کتاب الوقف، ج: 4 ، ص: 352،  ط : دار الفکر)

فتاو ی ہندیہ میں ہے :

"وعندهما ‌حبس ‌العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."

 (کتاب الوقف، ج: 2، ص: 350، ط : دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية."

(الباب الثانی فیما یجوز وقفه، ج: 2، ص: 362،  ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"مراعاة ‌غرض ‌الواقفين واجبة."

(كتاب الوقف، ج: 4، ص: 445، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604101949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں