بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف زمین کو بیچنا


سوال

ایک شخص نے مسجد کے مصالح کے لئے ایک زمین وقف کی جس کی آمدن سے امام کی تنخواہ اور دیگر مسجد کی ضروریات پوری کی جاسکیں، کچھ عرصہ بعد مسجد کی توسیع اور وضوخانوں کی تعمیر کی ضرورت کی بنا پر واقف نے جو کہ مسجد کا متولی بھی ہے، اس زمین کو بیچ کر اس کی رقم مسجد کی مذکورہ ضروریات میں لگادی، پھر خریدار نے  زمین  کسی اور کو بیچ دی۔

کیا مذکورہ قف زمین کی خرید و فروخت جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وقف جب صحیح ہوجائے   تو موقوفہ چیز تا قیامت واقف کي ملکیت سے نکل کر اللہ رب العزت کی ملکیت  میں داخل ہو جاتی ہے، اور وقف  کے مکمل ہونےکے بعد   اس کی خرید  وفروخت کرنا، ہبہ کرنا،  کسی کومالک بنا نا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا شرعا جائز نہیں،   اسی طرح  واقف نے موقوفہ چیز   جس مقصد کے لیے   وقف کی ہواس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، لہذا صورت مسئو لہ میں   مذکورہ جگہ جب مصالح مسجد کی لیے وقف کی گئی تھی اور وقف کرتے وقت واقف نے استبدال کی کوئی شرط بھی نہیں لگائی تھی تو وقف کرنے کے بعد اس جگہ کو فروخت  کرنا جائز نہیں تھا،  متولی پر لازم ہے کہ اس بیع  کو ختم  کرکے زمین دوبارہ  وقف کے استعمال میں  لوٹا ئیں،اگر متولی نے یہ زمین فروخت کر کے مسجد کی توسیع اور ضروریات میں استعمال کی ہے تو اہل محلہ کو   چاہئے کہ متولی کے ساتھ اس رقم کو واپس کرنے میں  تعاون کریں  اور   جو رقم مسجد کی توسیع اور وضروریات میں خرچ  ہو گئی ہے اس  رقم کو   جمع كر كے خریدار کو واپس  کردیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما".

(الفتاوى العالمگيرية: 2/ 350، ط دار الفكر)

شامی میں ہے:

’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به‘‘.

  (حاشية ابن عابدين، 4/433 ط: سعید)

شامی میں ہے:

"والحاصل أن ههنا مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد خلافا لمن أفتى بفساده."

  (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب بيع الفاسد 5/57 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں