بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

واپڈا کا ”داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ“ کے تحت مساجد تعمیر کرنا


سوال

ہمارے علاقے میں  ”داسو ہائیڈرو   پاور  پراجیکٹ“ کے نام سے ڈیم بنتا ہے اور اس کے لیے رقم ورلڈ بینک ادا کرتی ہے، جو کہ سود پر رقم دیتی ہے، اب واپڈا  والے یہاں ترقیاتی کام کرتے ہیں، ان میں مساجد بنانے کے لیے خطیر رقم دی جاتی ہے اور بعض جگہ مساجد کو گرا کر نئی بناتے ہیں، کیا ان سودی رقم سے مساجد بنوانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

 ہماری معلومات کے مطابق  ”داسو ہائیڈرو   پاور  پراجیکٹ“ ملک میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے  لیےشروع ہونے والا ایک پراجیکٹ ہے،  جو حکومتی ادارے  ”   واپڈا (WAPDA) “ یعنی  واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی  کے زیرانتظام    ہے، اس پراجیکٹ کے لیے     فنڈ کا انتظام ”   واپڈا (WAPDA) “   مختلف ذرائع سے کررہا ہے، جس میں عالمی بینک بھی شامل ہے، اور اس فنڈ سے  پراجیکٹ ایریا میں انفراسٹرکچر کی تعمیر ، معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے  مختلف منصوبوں کی تعمیر اور متاثرین کی از سر نو آبادکاری کے حوالے سے  کام کیا جارہا ہے۔

مذکورہ معلومات کے رو سے صورت مسئولہ میں چوں کہ   آپ کے علاقے میں دیگر تعمیراتی کاموں کی طرح ،  مساجد کی تعمیر کے لیے رقم      ”   واپڈا (WAPDA) “  ادا کررہا ہے، جوکہ سرکار کے ماتحت ادارہ ہے، اور وہ  مذكوره مجموعي  فنڈ سے  رقم کي  ادائیگی کررہا ہے،  براہ راست عالمی بینک مساجد کی تعمیر کے لیے رقم ادا نہیں کررہا؛ اس لیے    ان سے مساجد کی تعمیر کے لیے رقم لینا جائز ہے، اور اس سے مسجد کی تعمیر کرنا بھی جائز ہے، مسجد كي تعمير كے بعد اس مسجد  میں شرعی مسجد کے احکام جاری ہوں گے۔

باقی ان کا  فنڈ کے حصول کے لیے کسی سے سودی معاملہ کرنے کا وبال انہی پر  ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" اكتسب حرامًا واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئًا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا، وهذا قياس، وقال أبو بكر: كلاهما سواء ولايطيب له، وكذا لو اشترى ولم يقل بهذه الدراهم وأعطى من الدراهم دفع ماله مضاربة لرجل جاهل جاز أخذ ربحه ما لم يعلم أنه اكتسب الحرام.

[مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه]

(قوله: اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقًا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لايطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لايطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لايطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها."

  (5/ 235، كتاب البيوع،باب المتفرقات، ط: سعید )

فتاوی عالمگیری   میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:مكتبه رشيديه) 

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18]." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں