بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے لیے احترامًا کھڑے ہونے کا حکم


سوال

"جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوں تو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا" (الحدیث) غالباً یہ حدیث حضرت معاویہ بن سفیان سے روایت ہے ، اس حدیث کی کیا تطبیق ہے؟ مثال کے طور پہ اولاد اپنے والدین کے لئے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں یا پہلے اسلامی حکومتوں کے سلطان کے احترام میں رفقاء کھڑے رہتے تھے، اس کی وضاحت کردیں ۔

جواب

سائل نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے یہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان  رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے جو ذیل میں مکمل  سند کے ساتھ   ذکر کی جاتی ہے۔ 

مذکورہ حدیث کے مصداق وہ لوگ ہیں جو تعظیم کے مستحق نہ ہوں  ، لیکن   اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے  کو  پسند کرتے ہوں ، جس سے ان کے دلوں میں بڑائی اور تکبر پیدا ہوتا ہو، البتہ اولاد کا اپنے والدین کے لیے احتراما کھڑے ہونے میں، یا سلطانِ عادل کے لیے ان کے رفقاء کے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ،  اسی طرح اگر کسی بزرگ، استاذ یا کسی اور قابل احترام شخص کے لئے از خود کوئی کھڑا ہوجائے اور وه خود کھڑے ہونے کے لیے نہ کہے اور نہ اس پر خوشی کا اظہار کرےتو وہ اس حدیث کے مصداق سے خارج ہیں ۔

مزید دیکھیے:

استاذ کے کلاس میں آنے پر طلبہ کا استاد کے لیے کھڑا ہوجانا

مسند احمد میں ہے: 

"حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن حبيب بن الشهيد، قال: سمعت أبا مجلز قال: دخل معاوية على عبد الله بن الزبير وابن عامر، قال: فقام ابن عامر، ولم يقم ابن الزبير، قال: وكان الشيخ أوزنهما، قال: فقال: مه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أحب أن يمثل له عباد الله قيامًا، فليتبوأ مقعده من النار."

(مسند الشاميين، حديث معاوية بن أبي سفيان، رقم الحديث: 16830، ج28، ص40، ط: الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم وسيجيء نظما..............

(قوله يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم إلخ) أي إن كان ممن يستحق التعظيم قال في القنية: قيام الجالس في المسجد لمن دخل عليه تعظيما، وقيام قارئ القرآن لمن يجيء تعظيما لا يكره إذا كان ممن يستحق التعظيم، وفي مشكل الآثار القيام لغيره ليس بمكروه لعينه إنما المكروه محبة القيام لمن يقام له، فإن قام لمن لا يقام له لا يكره. قال ابن وهبان أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام، وما ورد من التوعد عليه في حق من يحب القيام بين يديه كما يفعله الترك والأعاجم اهـ. قلت: يؤيده ما في العناية وغيرها عن الشيخ الحكيم أبي القاسم كان إذا دخل عليه غني يقوم له ويعظمه، ولا يقوم للفقراء وطلبة العلم فقيل له في ذلك، فقال الغني يتوقع مني التعظيم، فلو تركته لتضرر والفقراء والطلبة إنما يطمعون في جواب السلام والكلام معهم في العلم، وتمام ذلك في رسالة الشرنبلالي."

( كتاب الحظر والاباحة،باب الاستبرا ء وغيرو، ج6، ص 384، ط: ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں