بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتے کے انتخاب کے لیے والدین کو رائے دینا


سوال

میرے والدین میرے لیے رشتہ دیکھ رہے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ کسی امیر گھر کی لڑکی سے میرا رشتہ کریں، مگر ایسا رشتہ مل نہیں رہا، جب کہ ہمارے قریبی عزیز ہیں ان کی بیٹی کا رشتہ اگر ہم چاہیں تو لے سکتے ہیں، مگر وہ ایک تو امیر بھی نہیں ہیں اور لڑکی کا باپ نشئی بھی ہے، مگر لڑکی ہر لحاظ سے ٹھیک ہے اور میں بھی چاہتا ہوں کہ میرا رشتہ وہیں ہوجائے، مگر والدین نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ لڑکی کا باپ نشئی ہے؛ اس لیے ہم نے رشتہ نہیں کرنا، مگر میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے والدین غلط سوچتے ہیں، میری نیت تو پہلے یہ ہے کہ لڑکی مجھے پسند ہے اور دوسری یہ کہ کسی غریب لڑکی کو بھی عزت کا حق ہے، ہم نے اور بھی تو کوئی بیاہ کر لانی ہے یہی کیوں نہیں؟ کیا میں اپنے والدین سے اصرار کر سکتا ہوں اس بات پر کہ وہ میرا رشتہ وہیں پر کریں؟

جواب

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتے کے انتخاب میں مال، خوب صورتی، حسب ونسب، اور دینداری میں سےدین داری کو ترجیح دینا چاہیے، اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کا رشتہ ایسی جگہ کریں جہاں دینی ماحول اور شرعی اَحکام کی رعایت ہوسکے۔ فقط مال داری کو ترجیح دینا اور اس بنا پر اولاد کی شادی میں تاخیر کرنا ہرگز مناسب نہیں۔

ساتھ ساتھ شریعت نے نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں، والدین اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں، اسی طرح بچے ایسی جگہ نکاح کرنے پر مصر نہ ہوں جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں۔

لہذا سائل کے والدین کا سائل کے رشتے کے لیے امیر گھرانے کی ہی لڑکی تلاش کرنا اور رشتہ نہ ملنے کی بنا پر نکاح کے سلسلہ میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ہے، دینداری کو ترجیح دے کر ایسے گھرانے میں رشتے کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کا ماحول دینی ہو، تاکہ نیک عورت کا انتخاب ہو اور گھر کا ماحول بھی شریعت کے موافق بن سکے، خواہ یہ غرض صاحبِ حیثیت گھرانے میں حاصل ہو یا متوسط یا غریب گھرانے میں۔

اگر سائل کو امید ہے کہ مذکورہ قریبی عزیز کے ہاں رشتہ کرنے سے دینی مصلحت حاصل ہوجائے گی تو سائل اپنے والدین کو اپنے قریبی عزیز کے ہاں رشتے کے لیے حکمت و بصیرت اور ان کے ادب و تعظیم کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب انداز میں آمادہ کرسکتا ہے، نیز لڑکی کے والد کے نشئ ہونے سے جب کہ لڑکی میں دینی اعتبار سے کوئی عیب موجود نہ ہو رشتہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا،محض والد کے نشئ ہونے کی بنا پر لڑکی کے رشتے سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔ 

مشکوۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك."

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے: اول: اس کا مال دار ہونا۔ دوم: اس کا حسب نسب والی ہونا۔ سوم: اس کا حسین وجمیل ہونا۔ چہارم: اس کا دین دار ہونا، اس لیے اے مخاطب! تم دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو! خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ! (کتاب النکاح ، الفصل الاول،ص:267،ط:قدیمی کراچی)

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ عورت سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں مذکورہ چار چیزوں کو بطور خاص ملحوظ رکھتے ہیں کہ کوئی شخص تو مال دار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، بعض لوگ اچھے حسب ونسب کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں، بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت ان کی رفیقہ حیات بنے، اور کچھ نیک بندے دین دار عورت کو ترجیح دیتے ہیں؛ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دین دار عورت ہی کو اپنے نکاح کے لیے پسند کرے؛ کیوں کہ اس میں دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی سعادت ہے۔

"خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ"، ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت وخواری اور ہلاکت کی بددعا کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہاں اس جملے سے یہ بد دعا مراد نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔ (مستفاد از مظاہر حق)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں