بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بالغ بیٹے کے اخراجات اٹھانا


سوال

ایک آدمی کا بہت بڑا ٹرانسپورٹ کا کام ہے، اور وہ اپنے کاروبار میں اپنے چار بیٹوں سے خدمت لیتا ہے، گھر کے تمام بل خود ادا کرتا ہے، چاروں بیٹوں کو جو اس کے ساتھ ہی رہتے ہیں ماہانہ اخراجات کا خرچہ دیتا ہے، ان چاروں بیٹوں میں سے ایک بیٹے کو مجبوری کی بناء پر باہر ملک بھیج دیتا ہے، باہر ملک جانے کے لئے جہاز کا ٹکٹ، ویزہ اور چند دنوں کے اخراجات کیلئے تقریبًا دو لاکھ اسی ہزار روپے دیتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ جو خرچہ والد نے اپنے بیٹے کو باہر ملک بھجوانے کے لئے اٹھایا، وہ اس بیٹے پر واپس کرنا لازم ہے یا نہیں؟چوں کے والد کااب انتقال ہوچکا ہے تو کیا وہ خرچہ اپنی والدہ ، تین بھائیوں اور دو بہنوں کو دینا ضروری ہے؟

نیز مذکورہ رقم بطورِ قرض کے نہیں دی تھی، بلکہ ویسے ہی خرچہ کے طور پر دی تھی، جس طرح والدنے دیگر بچوں کے اخراجات اٹھائے تھے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  والد نے اپنے بیٹے کو باہر ملک بھیجنے کے لئے جو اخرجات اٹھائے تھےاور والد کا بیٹے سے اس رقم کے بارے  میں کسی  قسم کا معاہدہ بھی نہیں ہواتھا کہ آیا یہ پیسے بطورِ قرض ہے یا بطورِ عطیہ ، تو لہذا یہ اخراجات تبرع  شمار ہوں گے اور بیٹے پر ان پیسوں کو واپس دینا شرعًا لازم نہیں ہے، کیونکہ والد (مرحوم)اپنے دیگر تمام بیٹوں کو بھی ہر ماہ کا خرچہ دیتے تھے جو قرینہ ہے کہ اسے بھی والد نے بطورہبہ پیسے دیے ہوں گے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"قد اشترط لانعقاد الهبة بالتعاطي وجود قرينة دالة على التمليك على ما هو موضح في شرح المادة الآنفة.

وعليه لو أعطى أحد ابنه مالا وتصرف الابن في المال فيبقى المادة لذلك الشخص أيضا. إلا إذا وجدت قرينة تدل على كونه ملك ابنه ذلك المال."

(الكتاب السابع الهبة، (المادة 839) تنعقد الهبة بالتعاطي، ج:2، ص:405، ط:دار الجیل)

فیض الباری میں ہے:

"ففي «القنية»: المتبرع لا يرجع فيما تبرع به."

(کتاب الھبة، باب هبة الواحد للجماعة، ج:4، ص:58، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں