بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین سے اصل تنخواہ چھپانا


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے ماں باپ کو اپنی  اصل تنخواہ کے بجائے تھوڑی سی کم تنخواہ بتا سکتا ہوں تا کہ کچھ پیسے اپنے اوپر خرچ کر سکوں ؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کا اپنی اولاد کے مال یا  تنخواہ  میں شرعاً  کوئی حصہ مقرر نہیں، البتہ  ضرورت مند والد ین کا نفقہ اس کے بیٹے پر لازم ہے،  نیز فقہاءِ کرام  نے لکھا ہے کہ  اگر والد محتاج اور غریب ہو اور اپنی اولاد کے مال کا محتاج ہو  تو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لے کر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے،  اور اس میں اولاد سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں،لہذا والدین مطلقاً اپنی اولاد کے مال یا تنخواہ کے  کسی خاص  کے مالک نہیں ہیں، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے۔ اور اگر انہیں ضرورت نہ ہو تو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اِحسان کا تقاضا ہے کہ اولاد حسبِ استطاعت والدین کی خدمت کرتا رہے،لہذا صورت مسئولہ میں سائل اگر اپنے خرچہ کے لیے کچھ پیسہ تنخواہ سے الگ کركے اپنےلئے رکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نیز اس کو والدین سے چھپانے کی ضرورت نہیں، اگر سائل تنخواہ کم بتاتا ہے تو یہ جھوٹ بولنے کے گناہ کا مرتکب ہوگا ، والدین کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کی ذاتی اور شخصی ضروریات میں تنگ ظرفی کا مظاہرہ نہ کریں۔

حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ میں ہے:

"وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغة، لكن الفقهاء جوزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورا يحتاج إليه للنفقة كثيرا، وإلا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي - صلى الله عليه وسلم - ‌ولم ‌يرخص ‌له في ترك النفقة وقال له: أنت ومالك لوالدك على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذاالوجه، فلا أعلم أحدا ذهب إليه من الفقهاء."

(باب ما للرجل من مال ولدہ جلد ۲ ص: ۴۳ ، ۴۴ ط: دارالجیل)

التیسیر بشرح الجامع الصغیر میں ہے:

"عن أبي هريرةكل أحد أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين) لا يناقضه ‌أنت ‌ومالك لأبيك لأن معناه إذا احتاج لماله أخذه لا أنه يباح له ماله مطلقا."

(حرف الکاف جلد ۲ ص: ۲۱۰ ط: مکتبة الامام الشافعي ۔ الریاض)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404101296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں