بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم


سوال

ایک بندہ اپنی شادی شدہ بہن کے ساتھ مل کر قربانی کا ایک جانور لارہا ہے، دونوں بہن بھائی اس جانور کی آدھی آدھی رقم دینگے، دونوں فریقین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وہ دونوں  اس جانور میں اپنے والدین جو کہ حیات ہیں، ان کا حصہ بھی ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ نیز بھائی غیر شادی شدہ اور بہن سے چھوٹا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں دونوں بہن بھائی اپنی خوشی ورضا مندی سے حیات والدین کی طرف سے ان کی اجازت سے قربانی کرسکتے ہیں، کہ ایک والد کے حصے کی ذمہ داری لے اور ایک والدہ کے حصے کی ذمہ داری لے ، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ بڑے جانور جس میں سات حصے شامل کرنے کی گنجائش ہے، اس سے کم حصے شامل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ ایک حصہ ایک سے زائد افراد کے لیے کافی نہیں ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌ولو ‌ضحى ‌ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغارا جاز عنه وعنهم جميعا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كبارا إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعا؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحما فصار الكل لحما."

(كتاب الأضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه، ج:5، ص:302، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم

نوٹ:شادی شدہ یا غیر شادی ہونے سے مسئلہ کی نوعیت  پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

 


فتوی نمبر : 144411101957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں