بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین اور شوہر میں سے کسی کے کہنے پر دوسرے کو چھوڑنا جائز نہیں ہے


سوال

کیاوالدین کے کہنے پر بیٹی کےلیے اپنے شوہر کو چھوڑناجائزہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں شوہر اور والدین دونوں کے اپنے اپنے حقوق ہیں،اور دونوں میں سے کسی بھی ایک کی حق تلفی کرناجائز نہیں ہے،لیکن ساتھ ہی ساتھ ناجائز کام میں کسی کی بھی اطاعت کی اجازت  نہیں۔

صورتِ مسئولہ اگر کوئی شرعی وجہ نہ ہو تو محض والدین کے کہنےپرشوہر کو  چھوڑنا جائز نہیں ہے،لہذادونوں کا احترام کرتے ہوئے کسی ایک کے کہنے پر دوسرے کی حق تلفی نہ کی جائے۔

مسند احمد میں ہے:

"عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ‌لا ‌طاعة ‌لمخلوق ‌في ‌معصية ‌الله ‌عز ‌وجل."

(مسند علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 333/2، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:" نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ:اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے۔"

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:

"وإنما ينبغي طاعة الوالدين في التطوع الذي يسع تركه....فإذا جاءت الفريضة والأمر الذي لا يسع الرجل فيه.… لم يلتفت في هذا إلى طاعة الوالدين، وكانت طاعة الله تعالى أحقّ أن يؤخذ بها من طاعة الوالدين."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الثامن والعشرون في الرجل يخرج إلى السفر ويمنعه أبواه...،  394/5، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیر مظہری میں ہے :

"(وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ) اى أمرناه ان يبرّهما ويشكرهما۔۔۔۔۔۔(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ)۔۔(وَهْناً )كائنا (عَلى وَهْنٍ)۔۔۔عن ابى هريرة قال قال رجل يا رسول الله من أحق بحسن صحبتي قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أباك ثم أدناك فادناك متفق عليه وقال عليه السّلام ان الله حرم عليكم عقوق الأمهات. متفق عليه۔۔۔۔۔(مسئلة) يجب بهذه الآية الإنفاق على الأبوين الفقيرين وصلتهما وإن كانا كافرين ،عن أسماء بنت ابى بكر قالت قدمت علىّ أمي وهي مشركة فى عقد قريش فقلت يا رسول الله ان أمي قدمت علىّ وهى راغبة أفأصلها قال نعم صليها. متفق عليه-۔۔۔(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما ؛لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره إشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ  مباح لا يمنعه العقل والشرع......إلخ."

(سورة لقمان، آیة: 14،15، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں