بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین اور بیوی میں سے کس کی اطاعت لازم ہے؟


سوال

میرے بڑے بیٹے کا مکان ہے، اس نے اپنی آمدنی سے خریدا ہے اور گھر اسی کے نام ہے،وہ  اور اس کی بیوی بچے سعودی عرب میں رہتے ہیں،  میں اور میری بیوی   مذکورہ مکان میں  بیٹے کی اجازت و مرضی سے رہتے ہیں، ہم دونوں کی عمریں بالترتیب 76 اور 71 سال ہے،میرا چھوٹا بیٹا اپنے بیوی بچوں سمیت  ہماری خدمت کے لئے  اسی گھر میں رہتا ہے، خدمت یہی چھوٹا بیٹا اور اس کے بیوی بچے کرتے ہیں جبکہ سارا خرچہ بڑا بیٹا بھیجتا ہے، اب ہماری بڑی بہو  اپنے شوہر پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کو اس گھر سے نکالو، یہ گھر میرا ہے، اور ہمارا بڑا بیٹا بھی ہمیں اسے نکالنے کا کہہ رہا ہے  جبکہ ہم اسے نہیں نکالنا چاہتے۔ لہذا پوچھنا یہ ہے کہ کیا بیوی کی بات کو والدین کی بات پر فوقیت حاصل ہے؟ والدین اور بیوی کا کتنا حق ہے؟

جواب

جواب سے  پہلے چند امور بطور  تمہید ملاحظہ  فرمائيں: 

(الف) شریعتِ مطہرہ نے والدین  اور بیوی  دونوں کو علیحدہ حیثیت اورمرتبہ دیا ہے اور دونوں کے علیحدہ حقوق مقرر کیے ہیں، اس طور پر کہ دونوں کے مرتبہ اور مقام کو سمجھ کر اگر کوئی شخص ان کے حقوق کی بجاآوری کرے تو کبھی ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے، بس اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ رب العزت نے والدین  کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ  والدین  کی اطاعت وفرماں برداری کو بھی لازم قرار دیا ہے، جب کہ بیوی کے صرف حقوق کی ادائیگی لازم ہے، نہ کہ اس کی اطاعت شعاری وفرماں برداری، بلکہ بیوی کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی مطیع وفرماں بردار بن کر رہے، احترام دونوں ہی کو اپنے مرتبہ کے لحاظ سے حاصل ہے اور ذمہ داریاں بھی دونو ں سے متعلق الگ الگ طے ہیں۔

(ب)قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اللہ تعالی کے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، "سورة الاسراء، آيت نمبر: 23، 24 "  میں الله  تعالی نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے اور بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد انہیں "اف/ ہوں" تک کہنے سے منع فرمایا ہے، حالانکہ "اف / ہوں" اذیت کا باعث بننے والے کلمات میں سے  سب سے ہلکا کلمہ ہے،ملاحظہ ہو:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا  [الإسراء: 23، 24]

ترجمہ: تیرے رب نے حکم کردیا کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی ہوں بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالاپرورش کیا ہے۔ (بیان القرآن) 

الغرض اللہ تعالی کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک سب سے اہم ہے بالخصوص جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں، اس عمر میں بھرپور خدمت کرکے ان کی راحت رسانی کا ذریعہ بننا  بڑی سعادت کی بات اور نیک بختی کی علامت ہے ، اور  ان کی ایذا رسانی کا ذریعہ بننا بدبختی کی علامت ہے۔

(ج)  والدین کے ساتھ رہائش پذیر چھوٹا بیٹا اگر عسرت و تنگ دستی کے باعث ضرورت مند ہے اور اپنے لئے الگ گھر کا بندوبست نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں بڑے بھائی پر اس کا نان نفقہ اور اس کی رہائش  کا بندوبست کرنا واجب ہے، اس صورت میں اسے گھر سے نکالنا شرعاً درست نہیں ہوگا۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں آپ کے بڑے بیٹے کو چاہیے کہ بیوی کی بات پر والدین کی بات کو ترجیح دے اور ان کی راحت رسانی کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنے کی کوشش کرے بالخصوص جب والدین بڑھاپے کی وجہ سے خدمت اور سہارے کے محتاج ہوچکے ہوں تو چھوٹے بھائی کو گھر سے نکال کر والدین کو بے یار و مددگار نہ چھوڑے، نیز اگر چھوٹا بھائی تنگ دست اور ضرورت مند ہو تو اسے گھر سے نکالنا شرعاً جائز ہی نہیں ہوگا۔ 

سنن ابن ماجه (2/ 1208):

’’ عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك.‘‘

(كتاب الأدب، باب برالوالدين، ط: دارإحياء الكتب العربية)

"ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت یا دوزخ ہیں" یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔

شعب الإيمان (10/ 307)

’’ عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة، وإن كان واحدا فواحدا، ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار، وإن كان واحدا فواحدا " قال الرجل: وإن ظلماه؟ قال: " وإن ظلماه، وإن ظلماه، وإن ظلماه" ‘‘

(ط: مكتبة الرشد الرياض)

’’ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے اپنے والدین کا فرمانبردار رہا اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گےاورجو ان کا نافرمان ہوا اس کے  لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گےاور اگر والدین میں سے کوئی ایک تھا تو ایک دروازہ (جنت یا جہنم کا) کھلا رہے گا، اس پر ایک شخص نے سوال کیا: یہ  (جہنم کی وعید) اس صورت میں بھی ہے جب والدین نے اولاد پر ظلم کیا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو(یعنی والدین کی ایذاء رسانی پر جہنم کی وعید ہے اگرچہ والدین نے اولاد پر ظلم کیا ہو)۔‘‘ 

شعب الإيمان (10/ 289)

’’ عن أبي بكرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء، إلا عقوق الوالدين، فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات ‘‘

(ط: مكتبة الرشد الرياض)

"دیگر سب گناہوں میں سے اللہ جو چاہیں معاف فرمادیتے ہیں سوائے والدین کے ساتھ بدسلوکی و نافرمانی کے گناہ کو، اس کی سزا اللہ تعالی نافرمان اولاد کو مرنے سے پہلے ہی دے دیتے ہیں"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں