عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «من رأى منكم منكراً فليُغيِّره بيده، فإلم يستطع فبلسانه، فإلم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان». [صحيح] - [رواه مسلم]
کیا مندرجہ بالا حدیث کے تحت والدین کو گناہ اور حرام سے بچے روک سکتے ہیں یا نہیں؟ مثلاً غیبت سے اور گاڑی کی انشورنس سے۔
واضح رہے کہ والدین اللہ رب العزت کی ایسی نعمت ہیں کہ جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں ہے، مخلوق میں انسان پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور اس کی بے لوث خدمت کرنے والے والدین ہی ہیں، اسی لیے والدین کے حقوق کو اسلام میں بہت زیادہ تاکید سے بیان کیا گیا ہے، اور اُن کی فرماں برداری کو رب تعالیٰ کی فرماں برداری، اور اُن کی نافرمانی کو رب تعالیٰ کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی اطاعت کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ داروں میں سب سے زیادہ حق والدین کا ہے، اور اُن کی اطاعت ضروری ہے۔
جیسا کہ سورۂ اسراء میں ارشاد ہے:
"وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيماً () وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً () رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً."
[الأسراء: ٢٣ - ٢٥]
ترجمہ: "تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اُس (معبودِ برحق) کے کسی کی عبادت مت کر اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو اگر (وہ) تیرے پاس (ہوں اور) اُن میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بوڑھاپے (کی عمر) کو پہنچ جاویں (جس کی وجہ سےمحتاج ِ خدمت ہوجاویں اور جب کہ طبعاً اُن کی خدمت کرنا ثقیل معلوم ہو) سو (اُس وقت بھی اتنا ادب کرو کہ) اُن کو کبھی (زبان سے) ہوں بھی مت کہنا اور نہ اُن کو جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے بات کرنا اور اُن کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور (اُن کے لیے حق تعالیٰ سے) یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمایے جیسا کہ انھوں نے مجھ کو بچپن (کی عمر) میں پالا پرورش کیا ہے (اور صرف اس ظاہری توقیر وتعظیم پر اکتفا مت کرنا، دل میں بھی اُن کا ادب اور قصدِ اطاعت رکھنا کیوں کہ) تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے (اور اسی وجہ سے تمہارے لیے ایک تخفیف بھی سناتے ہیں کہ) اگر تم (حقیقت میں دل ہی سے) سعادت مند ہو (اور غلطی یا تنک مزاجی یا دل تنگی سے کوئی ظاہری فروگذاشت ہوجاوے اور پھر نادم ہوکر معذرت کرلو) تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔"
(بیان القرآن، ٦/ ٨١، ط: میر محمد کتب خانہ)
اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالی نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورۂ لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے " أن اشكر لي ولوالديك" یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالی کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے، صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے کہ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عمل محبوب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نماز اپنے وقت (مستحب) میں ، اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔‘‘
( معارف القرآن:۵/ ۴۶۳، ط: دارالعلوم)
نیز والدین کو انسان کے لیے جنت اور دوزخ کا معیار قرار دیا گیا ہے، یعنی اُن کی فرماں برداری اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک انسان کو جنت میں لے جاسکتا ہے، اور اُن کی نافرمانی اور اُن کے ساتھ بدسلوکی انسان کو جہنم میں پہنچا سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:
"عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: هما جنتك ونارك."
(سنن ابن ماجه، كتاب الأدب، باب برالوالدين، ٢/ ١٢٠٨، ط: دارإحياء الكتب العربية)
ترجمہ:" ’’ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت اور دوزخ ہیں‘‘۔ (یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔)"
نیز والدین کی نافرمانی کرنا اور اُن کو تکلیف پہنچانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، ایسی اولاد کے بارے میں شریعت میں بڑی سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں، والدین کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیا گیا ہے، اور والدین کو ستانے والی اولاد کے بارے میں ہے کہ اُسے دنیا ہی میں نقد سزا مل جاتی ہے۔
جیسا کہ حدیث مبارک میں ارشاد ہے:
"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات»."
(مشكاة المصابيح، أبواب البر والصلة، ٣/ ٣٨٣، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ:"حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیگر سب گناہوں میں سے اللہ جو چاہیں معاف فرمادیتے ہیں سوائے والدین کے ساتھ (بدسلوکی و) نافرمانی کے گناہ کے، اس کی سزا اللہ تعالی نافرمان اولاد کو مرنے سے پہلے زندگی میں ہی دے دیتے ہیں۔"
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی کے والدین کسی گناہ میں مبتلاء ہوں تو حکمت وبصیرت کے ساتھ ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں سمجھانا چاہیے اور ایسی کوئی ترکیب اختیار کرنی چاہیے کہ جس سے والدین کے ادب میں بھی کمی نہ آئے اور انہیں اپنی غلطی کا بھی احساس ہوجائے، مثال کے طور پر جس گناہ میں والدین مبتلاء ہوں‘ اُس گناہ کی شناعت اور اس سے متعلق قرآن وحدیث میں وارد وعیدات کو‘ والدین کو مخاطب کیے بغیر‘ سنانا، یا پھر کسی ایسے بزرگ شخص کے ذریعہ والدین کو سمجھانا جس کی بات وہ مانتے ہوں وغیرہ۔ نیز والدین سے بات کرتے وقت بدکلامی، یا امتیازی لہجہ اختیار کرنا جائز نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اخلاص کے ساتھ اُن کو سمجھایا جائے، تو ان شاء اللہ تعالیٰ معاملہ آسان ہوجائےگا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100066
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن