بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی خدمت بڑی سعادت ہے


سوال

 عرض یہ  ہے کہ میں اپنے وطن ہی میں روزگار چاہتا ہوں ،اس کی وجہ یہ کہ والدہ وفات پاچکی ہیں ،اور والد صاحب تنہا رہتے ہیں، لیکن معاشی مجبوری کی وجہ سے باہر نکلنا پڑتا ہے، اور اس کی وجہ سے دل ودماغ بہت پریشان رہتاہے رہ انمائی فرمادیں تاکہ میں گھر پر روزگار بھی حاصل کرلوں اور والد صاحب کی خدمت کی بھی سعادت حاصل کرلوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں  اگرچہ تنگی معاش کی وجہ سے باہر  کسی ملک جانا درست ہے تاہم  مشورہ یہی ہے کہ   پاکستان میں رہ کر کم آمدنی پر قناعت کرنے کوشش کریں ،اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا کریں، عبادات کا اہتمام کریں اور والدکے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں ،ان شاء اللہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمام مشکلات میں آسانی فرمائیں گے،اور اگر یہاں رہ کر  معاشی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑے ،اور دوسرے ملک جاۓ بغیر گزارا مشکل ہو تو ایسی صورت میں  بہتر یہ ہے کہ کسی طرح والد صاحب کو بھی ساتھ  لے جائیں،تاکہ آپ  ان کی طرف سے بے فکر رہیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے 

"عن ابن عباس "حسبنا الله و نعم الوكيل" قالها إبراهيم عليه السلام حين ألقي في النار، و قالها محمد صلى الله عليه وسلم حين قال لهم الناس: إن الناس قد جمعوا لكم فاخشوهم، فزادهم إيمانا، وقالوا: حسبنا الله ونعم الوكيل ... عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا وقعتم في الأمر العظيم فقولوا: حسبنا الله ونعم الوكيل» هذا حديث غريب من هذا الوجه."

(آل عمران:،١٥٠/٢، ط :دارالکتب العلمية)

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

"أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، في التاريخ، أنا أبو الطيب محمد بن عبد الله بن [ص:307] المبارك، نا أبو محمد عبد الله بن يحيى بن موسى السرخسي بنيسابور، نا سعيد بن يعقوب الطالقاني، نا عبد الله بن المبارك، عن يعقوب بن القعقاع، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة، وإن كان واحدا فواحدا، ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار، وإن كان واحدا فواحدا " قال الرجل: وإن ظلماه؟ قال: " وإن ظلماه، وإن ظلماه، وإن ظلماه."

(برالوادين،٣٠٦/١٠، ط:مكتبة الرشد ) 

المفاتيح في شرح المصابيح میں ہے:

"وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌رضا ‌الرب ‌في ‌رضا ‌الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد".قوله: "‌رضا ‌الرب ‌في ‌رضا ‌الوالد"؛ يعني: إذا رضي الوالد رضي الرب عنه، وكذلك السخط، وذكر الوالد، والمراد منه: الوالدة أيضا، بل حق الوالدة آكد، وكذلك جميع الآباء والأمهات وإن علوا داخلون في هذا الحديث، إلا أن من هو أقرب حقه آكد.روى هذا الحديث عبد الله بن عمر".

(كتاب الآداب،باب البر والصلة،٢٠٩/٥،ط : دار النوادر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں