حکم ہے کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، اگر صورتِ حال یہ ہو کہ آپ والدین کو کوئی صحیح بات بتائیں، جس سے مقصود اُن کی اصلاح ہو ،تو اس صورت میں شرعی حکم کیاہے ؟ یہ والدین کی بے ادبی کے زمرےمیں تو نہیں آتا ؟
والدین کا ادب واحترام اور اُن کی خدمت کرنااولاد کی ذمہ داری ہے ، اُن کی نافرمانی یا اُن کے ساتھ سختی سے بات چیت کرنا جائز نہیں ہے؛لہٰذا والدین کی اصلاح کے لئے کوئی بات کہنا ضروری ہو تو انتہائی ادب و احترام اورنرمی سے بات کہی جائے،سختی،بے ادبی اور بد تمیزی سےمکمل اجتناب کرنا چاہئے۔اگر ممکن ہو توخود اُن سے کچھ کہنے کے بجائے کسی بزرگ یا اُن کے ہم مرتبہ شخص سے اُن کو سمجھانے کی درخواست کرنی چاہئےاور اُن کی اصلاح وہدایت کے لیے خوب دعا واستغفارکا اہتمام کرنا چاہئے۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"[فرع] في فصول العلامي: إذا رأى منكرا من والديه يأمرهما مرة، فإن قبلا فبها، وإن كرها سكت عنهما واشتغل بالدعاء والاستغفار لهما فإن الله تعالى يكفيه ما أهمه من أمرهما.
له أم أرملة تخرج إلى وليمة وإلى غيرها فخاف ابنها عليها الفساد ليس له منعها بل يرفع أمرها للحاكم ليمنعها أو يأمره بمنعها."
(کتاب الحدود، باب التعزير، 4/78، ط: سعید)
تفسیرابنِ کثیر میں ہے:
"وَلَمَّا نَهَاهُ عَنِ الْقَوْلِ الْقَبِيحِ وَالْفِعْلِ الْقَبِيحِ، أَمَرَهُ بِالْقَوْلِ الْحَسَنِ وَالْفِعْلِ الْحَسَنِ فَقَالَ:{وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا}أَيْ: لَيِّنًا طَيِّبًا حَسَنًا بِتَأَدُّبٍ وَتَوْقِيرٍ وَتَعْظِيمٍ۔۔۔۔۔۔۔{رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأوَّابِينَ غَفُورًا(25)."
قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: هُوَ الرَّجُلُ تَكُونُ مِنْهُ الْبَادِرَةُ إِلَى أَبَوَيْهِ، وَفِي نِيَّتِهِ وَقَلْبِهِ أَنَّهُ لَا يُؤْخَذُ بِهِ -وَفِي رِوَايَةٍ: لَا يُرِيدُ إِلَّا الْخَيْرَ بِذَلِكَ -فَقَالَ: {رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ}
(سورۃالإسراء، آیت: 25 ،23، 5/67، ط: دار طیبة للنشر والتوزیع)
تفسیرجلالین میں ہے:
"{رَبّكُمْ أَعْلَم بِمَا فِي نُفُوسكُمْ} مِنْ إضْمَار الْبِرّ وَالْعُقُوق {إنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ}طَائِعِينَ لِلَّهِ {فإنه كان لِلْأَوَّابِينَ}الرَّجَّاعِينَ إلَى طَاعَته {غَفُورًا}لِمَا صَدَرَ مِنْهُمْ فِي حَقّ الْوَالِدَيْنِ مِنْ بَادِرَة وَهُمْ لَا يُضْمِرُونَ عُقُوقًا."
(سورۃ الإسراء، آیت26، ص: 368، ط: دارالحدیث القاهرۃ )
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144307101304
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن