دسمبر 2023 میں میں نے ایک بیوہ خاتون سے شرعی نکاح کیا تھا، اس نکاح کے وقت میں نے اپنے والدین کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا تھا، كیوں کہ وہ اس شادی کے خلاف تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ میری اپنے خاندان میں پہلے سے میری مامی کی لڑکی سے منگنی ہو چکی تھی،شادی کے بعد میرا ارادہ تھا کہ میں کسی نہ کسی طرح سے اپنی منگنی توڑ دوں، لیکن گھریلو حالات کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ ہو سکا، میرے والد بیمار ہو گئے اور میری مامی کو دل کی تکلیف ہو گئی، ان حالات میں میں نے تقریباً ایک سال بعد اپنی منگنی والی لڑکی سے بھی نکاح کر لیا۔ اب حال ہی میں والدین کو میری پہلی شادی کے بارے میں علم ہوا ہے اور وہ اس سے بہت ناراض ہیں، وہ مجھ پر زور دے رہے ہیں کہ میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دوں، وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں یا تو انہیں چھوڑ دوں یا اپنی پہلی بیوی کو، میں چھپ کر رہتے ہوئے بھی دونوں بیویوں کے حقوق کو برابر دینے کی کوشش کر رہا ہوں، میں ہفتے میں تین دن ایک گھر اور تین دن دوسرے گھر گزارتا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا میں شرعاً اپنے والدین کا نافرمان ہو گیا ہوں؟ اور اس صورتِ حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
شریعتِ مطہرہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی فرمانبرداری کی انتہائی تاکید کرتی ہے، والدین کی نافرمانی کرنا اور ان کو تکلیف پہنچانا گناہِ کبیرہ ہے، البتہ اگر کسی شرعی عذر کے بغیر والدین بیوی کو طلاق دینے کا حکم کریں اور بیٹے کو یہ اندیشہ ہو کہ بلا وجہ بیوی کو طلاق دینے سے اس کی حق تلفی ہوگی تو ان کا یہ حکم ماننا ضروری نہیں اور یہ حکم نہ ماننے سے بیٹا گناہ گار نہیں ہوتا، حدیث شریف کے مطابق تمام حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے، شدید مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں والدین کے کہنے سے آپ پر یہ لازم نہیں ہے کہ آپ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیں اور والدین کا یہ مطالبہ درست نہیں ہے کہ یا انہیں چھوڑ دو یا اپنی پہلی بیوی کو۔
البتہ والدین کے ایک جگہ رشتہ طے کر لینے کے بعد چھپ کر دوسری جگہ نکاح کرلینے اور پھر انہیں لاعلم رکھ کر دوسرا نکاح بھی کرلینے کا طریقہ غلط تھا، اس کی وجہ سے انہیں جو تکلیف ہوئی ہے آپ پر لازم ہے کہ آپ ان سے معافی مانگیں۔
اس کے علاوہ اگر آپ نے اپنے ماموں کے خاندان سے جھوٹ بول کر اور ان کو دھوکہ میں رکھ ان کی بیٹی کے ساتھ دوسرا نکاح کیا ہے تو جھوٹ اور غلط بیانی کی وجہ سے آپ گناہ گار ہوئے، آپ پر لازم ہے کہ ان سے بھی معافی مانگیں اور توبہ و استغار کریں۔
تاہم دونوں نکاح درست ہیں اور اب آپ پر لازم ہے کہ دونوں بیویوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور ان کے درمیان انصاف اور برابری کا معاملہ کریں، بلاوجہ شرعی کسی کو طلاق مت دیں ورنہ خود گناہ گار ہوں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فقد صرح في الهداية بأنه (أي الطلاق) مشروع في ذاته من حيث إنه إزالة الرق، وأن هذا لا ينافي الحظر لمعنى في غيره؛ وهو ما فيه من قطع النكاح الذي تعلقت به المصالح الدينية والدنيوية اهـ فهذا صريح في أنه مشروع ومحظور من جهتين وأنه لا منافاة في اجتماعهما لاختلاف الحيثية كالصلاة في الأرض المغصوبة، فكون الأصل فيه الحظر لم يزل بالكلية بل هو باق إلى الآن؛ بخلاف الحظر في النكاح ... وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق."
(كتاب الطلاق، 3/ 228، ط: سعيد)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"61 - عن معاذ قال: أوصاني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بعشر كلمات، قال: لا تشرك بالله شيئا، وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك...
(ولا تعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( وإن أمراك أن تخرج من أهلك ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضا أي: لا تخالف واحدا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلا يلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاء شديدا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلا يكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولا يلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله."
(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، 1/ 132، ط: دار الفكر)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"2177 - حدثنا أحمد بن يونس، نا معرف، عن محارب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أحل الله شيئا أبغض إليه من الطلاق.
2178 - حدثنا كثير بن عبيد، نا محمد بن خالد ، عن معرف بن واصل، عن محارب بن دثار ، عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق".
(كتاب الطلاق، باب: في كراهية الطلاق، 2/ 220 ، ط : المطبعة الأنصارية بدهلي)
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:
"التوبة من المعصية واجبة شرعا على الفور باتفاق الفقهاء؛ لأنها من أصول الإسلام المهمة وقواعد الدين، وأول منازل السالكين قال الله تعالى: {وتوبوا إلى الله جميعا أيها المؤمنون لعلكم تفلحون}".
(تحت مادة: توبة، حكم التوبة، 14/ 125، ط: دارالسلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن