بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے ترکے میں سے بہن کو حصہ نہ دینے کا حکم


سوال

جب میری ساس کے والدین کا انتقال ہوا تو ان کے ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیٹی (یعنی میری ساس تھیں) تھی، لیکن میری ساس کے بھائیوں نے اس وقت اپنی بہن کو والدین کی میراث میں سے حصہ نہیں دیا، اب میری ساس کا بھی انتقال ہوچکا ہے اور ورثاء میں ایک بیٹی اور دو بھائی ہیں، شوہر کا انتقال پہلے ہی ہوچکا تھا، میری ساس کے انتقال کے بعد بھی ان کے دونوں بھائی جنہوں نے بہن کی زندگی میں اسے اس کا حصہ نہیں دیا تھا اب بھی وہ دونوں اس حصے میں سے اپنی بہن کی بیٹی (میری بیوی) کو اس کا  حصہ دینے سے انکار کر رہے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کا ورثاء کو ان کا حصہ نہ دینا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اور ہم ان سے مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  خود  تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہن کو  اس کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے،  حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں ، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے  ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی ساس کے بھائیوں نے اپنی بہن کی زندگی میں والدین کے ترکے میں سے بہن کا حق دبا کر سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اس ناجائز فعل پر دونوں بھائیوں پر خوب توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، بہن کے انتقال کے بعداب اس حق کی تلافی کی ممکن صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بہن کا جو حق بنتا تھا وہ بہن کے ورثاء میں تقسیم کردیا جائے؛ کیوں کہ اگر اس دنیا میں نہیں دیں گے تو آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، مرحومہ بہن کے شرعی وارث ان کی بیٹی اور یہی دونوں بھائی ہیں، مرحومہ کے ترکہ میں سے آدھا حصہ چوں کہ مرحومہ کی بیٹی کا حق بنتا ہے اور باقی آدھا دونوں بھائیوں ک حق بنتا ہے؛ اس لیے دونوں بھائیوں پر لازم ہے کہ بہن کے حصے کا آدھا حصہ مرحومہ بہن کی بیٹی کو ادا کردیں، کیوں کہ اب وہ آدھا حصہ مرحومہ کی بیٹی کا حق بن چکا ہے، اسی لیے مرحومہ کی بیٹی کا اپنے ماموؤں سے اپنی والدہ کے حصہ کے نصف حصے کا مطالبہ کرنا بالکل جائز ہے ۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعاریۃ1/254ط: قدیمی)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے :

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

 

(باب الوصایا، الفصل الثالث1/266ط : قدیمی)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين".

(الفتاوى الهندية، كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج: 6/ 448، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں