میرے والد محترم اور والدہ محترمہ کا مشترکہ سیونگ اکاؤنٹ ایک بینک میں تھا ،جہاں والد محترم کی تنخواہ دورانِ ملازمت اور بعد ازاں پینشن آتی تھی۔ والد محترم کے انتقال کے بعدپینشن والدہ محترمہ کے نام منتقل ہوئی اور والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد اب اکاؤنٹ میں جو رقم ہے وہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہونی ہے۔ اِس اکاؤنٹ میں تنخواہ اور پینشن کے علاوہ بینک کی طرف سے ملنے والا سود اور حکومت کی طرف سے کسی میوچل فنڈ کے منافع کی رقوم بھی شامل ہیں۔ یہ اب تقریبًا ناممکن ہے کہ یہ حساب لگایا جا سکے اِس میں تنخواہ کی، پینشن کی، سود کی اور میوچل فنڈ کی رقوم کِس تناسُب سے شامل ہیں۔
میرا سوال ہے کہ!
1۔ کیا یہ رقم ورثاءکے لیے موجودشکل میں حلال ہے؟
2۔ اگر موجودہ شکل میں حلال نہیں ہے تو کیا ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کسی غیر مُسلِم سے اتنی ہی رقم قرض لے کر اکاؤنٹ والی رقم سے اُس کا قرض ادا کر دیا جائے؟
3۔ اگر موجودہ شکل میں اکاؤنٹ والی رقم ورثاء کے لیے حلال نہیں ہے تو کیا ایسا کوئی شرعی حیلہ ہے جِس سے یہ رقم ورثاء کے لیے مباح ہو جائے؟
1 : صورت مسئولہ میں والد کی حلال تنخواہ، پینشن ، والدہ کی جمع شدہ حلال رقم (اگر ہو)اور میوچول فنڈ کی سرمایہ کاری کی اصل رقم وصول کرنا ورثاء کے لیے حلال ہے۔ سود کی رقم اور میوچول فنڈ کے منافع کی رقم وصول کرنا ورثاء کے لیے ناجائز ہے۔
2 : مذکورہ حیلے سے حرام رقم وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔
3 : حرام کو حلال کرنے کا حیلہ تلاش کرنا قابلِ اصلاح بات ہے ؛ لہذا مذکورہ رقم کو حیلے کے ذریعہ مباح کرکے وصول کرنے کے بجائے بینک یامتعلقہ اداروں سے بیلنس شیٹ ،اسٹیٹمنٹ وغیرہ کے ذریعہ ممکنہ کوششوں کے بعد ایک اندازہ لگالیا جائے اور پھر صرف اتنی رقم وصول کی جائے جس کے بارے میں یقین ہو کہ یہ حلال ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 386):
"قلت: و مرّ في البيع الفاسد لكن في المجتبى مات و كسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز و قال: لانأخذ بهذه الرواية و هو حرام مطلقًا على الورثة فتنبه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200435
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن