بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے پاس اگر مال ہو، تو کیا والد پر ان کا نفقہ لازم ہے؟


سوال

میری سگی بھانجی جوکہ محکمہ تعلیم میں گریڈ 17 کی ملازمہ تھی، کچھ عرصہ قبل قضائے الہٰی سے وفات پاگئی ہیں، ورثاء میں والد، شوہراور تین   کم عمر بیٹیاں ہیں، شوہر بھی محکمہ تعلیم میں  لیکچرار ہیں اور محکمہ  سے مرحومہ کی واجبات وصول کر نے کے لیے عدالت سے گارڈین طے ہوچکا ہے، واجبات میں شرعی لحاظ سے وہ کس قدر استعمال کرسکتا ہے؟ اور تین بچیوں کا حصہ کتنا ہوگا؟

2۔کیا بچیوں پر خرچ کرنا والد کی ذمہ داری ہے؟ جب کہ وہ 18 گریڈ کا سرکاری ملازم  ہے اور اس کے والدین حیات ہیں، ان پر بھی خرچ کرنا ہے۔

3۔اگر مرحومہ کا شوہر دوسری شادی کرتا ہے جوکہ اس کا شرعی حق ہے، تو پھر بچیوں پر خرچ کرنا او ان کی کفالت کرنا والد کی ذمہ ہے؟

4۔بچیوں کے حصہ کی رقم سے کیا بہتر ہے کہ کوئی جائداد خرید کر ان کے نام کردے ؟

وضاحت: واجبات سے مراد پینشن ہے،پینشن بچوں کے نام ہے اور ان کے والد بطور گارڈین مقرر کیے گئے ہیں۔

والدین کی دیکھ بھال کے لیے مرحومہ کے شوہر کا  کوئی بھائی نہیں۔

بچیوں کی نانی ودادی کا انتقال ہوچکا ہے، خالہ زندہ ہے۔

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں محکمے کی جانب سے ملنے والی پینشن جن کے لیے جاری ہوتی ہے وہی اس کا مالک بنتے ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر محکمہ نے مرحومہ کی بچیوں کے لیےپینشن جاری کی ہے، تو اس کی مالک بچیاں ہے، یہ پینشن مرحومہ کے ترکہ میں شمار نہیں ہوگی، مرحومہ کے شوہر کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ چوں کہ شوہر ان بچیوں کے والد اور ولی ہیں  ،لہذا وہ پینشن کی رقم سے اپنی بچیوں کی ضروریات میں خرچ کرسکتا ہے۔

2۔واضح رہے کہ والد پر اپنی اولاد کا خرچہ اس وقت لازم ہوتا ہے جب ان کی ملکیت وکفالت کے لیے مال موجود نہ ہو، البتہ اگر ان کے پاس مال موجود ہو تو والد  کے ذمہ اپنے مال سے ان کی کفالت لازم نہیں ، بلکہ والد ان کی ضروریات ان کے مال ہی سے پوری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  بچیوں کا خرچہ ان کے والد کے ذمہ لازم  نہیں ہے،والد اپنی بچیوں کی ضروریات ان ہی کے مال سےادا کرے گا، البتہ اگر وہ ان کی کفالت اپنے مال سے کرے،تو یہ والد کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا، جس کی وجہ سے آخرت میں اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔

3۔اگر بچیوں کا والد دوسری شادی کرتا ہے،تب بھی بچوں  کی مالی کفالت  ان کے والد   بچیوں کے مال سے ہی کرے گا، نیز نو سال کی عمر تک بچیوں کی پرورش کا حق خالہ کو حاصل ہے،مذکورہ عمر کے بعد تربیت کا حق والد کو حاصل ہوگا۔

4۔اگر ان بچیوں کےلیے  پینشن جاری ہوئی ہے یا ان بچیوں کا اس کے علاوہ کوئی مال ہے، تو اس کی ولایت اور ذمہ داری والد کو حاصل ہے، اس کے پاس یہ مال امانت ہے، وہ اس مال کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا،والد ان کے اخراجات اس مال سے  ادا کرے گا،تاہم اگر وہ بہتر سمجھے تو اس مال سے بچیوں کی ضروریات کے مطابق  پیسے نکال کر بقایاپیسوں کے ذریعہ ان کے لیے جائز کاروبار بھی  کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث."

 (کتاب الطلاق، باب العدۃ،ج:3،ص:563، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"‌لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال."

(كتاب الفرائض،ج:6،ص:759،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن كان للصغير عقار، أو أردية، أو ثياب، واحتيج إلى ذلك للنفقة كان للأب أن يبيع ذلك كله وينفق عليه كذا في الذخيرة."

(كتاب الطلاق، باب في النفقات،ج:1،ج:562،ط:رشيديه)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولطفله الفقير) أي تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده ‌الصغير ‌الفقير۔۔۔وقيد بالفقير؛ لأن الصغير إذا كان له مال فنفقته في ماله."

(كتاب الطلاق، باب انفقة،ج:4،ص:218،ط:دار الكتاب الإسلامي)

الاحكام الشرعيةفي الاحوال الشخصية میں ہے:

"2103-  فإن كان الولد غنياّ فنفقته في ماله سواء كان صغيراّ أو كبيراّ وسواءكا مذكراّ أو مؤنثاّ لأن نفقته، إنما وجبت علي ابيه للحاجة وبغناه اندفعت حاجته فلا تجب علي غيره."

(الباب الثاني فيما يجب للولد علي الوالدين،الفصل الرابع فی النفقۃ الواجبۃ للأبناء علی الآباء،ج:2، ص:993،ط:دار السلام)

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:

" نابالغ کا کھانا، کپڑا،رہن سہن والد کے ذمہ ہوتا ہے،جب کہ خود اس نابالغ کے پاس مال نہ ہو۔"

(باب النفقات،ج:13،ص:467،ط:اداره الفاروق كراچي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں