بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا سوتیلے بیٹے کے لیے وصیت کرنا


سوال

میری والدہ کا پُرانا مکان تھا (والد صاحب نے خریدا تھا والدہ صاحبہ کے نام کیا تھا لیکن والد صاحب سا تھ  رہتے تھے) ،اور میرے ایک سوتیلا (باپ شریک )بھائی ہے  ،میری والدہ نے ان کے لئے وصیت کی تھی کہ مکان میں سے ان کو بھی حصّہ  دیا جائے،اور ہم نے وہ پرانے گھر کو بیچ کر ایک  پلاٹ لیا اورا س کو  تعمیر  کیا والدہ  کی وصیت یہ تھی  کہ پرانے گھر  کے لحاظ سے (باپ شریک) بھائی کو حصّہ  دیا جائے،لہذا اب پوچھنا  یہ ہے کہ شرعی  لحاظ سے اس باپ شریک بھائی کا کتنا حصّہ بنتا ہے ،نیز  F.R.C (فیملی  رجسٹریشن  سرٹیفیکٹ) میں  اس کا کوئی نام نہیں ہے ، واضح  رہے کہ والدہ  انتقال کر چکی ہیں لیکن  پرانا  مکان اور یہ نیا مکان  جو ابھی بنایا ہے وہ والدہ ہی کے نام پر تھا ۔از راہ کرم راہ نمائی فرمائیں ۔اور یہ کہ میری ایک باپ شریک  بہن  بھی   ہے لیکن  وصیت  والدہ   نےبھائی  ہی  کے  بارے  میں  کی تھی (باپ شریک) بہن کے بارے میں نہیں کی تھی ۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی چیز کا ہبہ درست ہونے کے لیے مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ دینا ضروری ہے اور مکان  کا قبضہ تام ہونے کا طریقہ یہ  ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اُس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس  مکان  سے نکل جائے، اور موہوب لہ کو اُس کا  مکمل قبضہ دے دے،  ليكن  اگر ہبہ کرنے والا خود یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو گفٹ کردے تو  یہ گفٹ مکمل نہیں ہوتا اور اصل مالک ہی کی ملکیت میں رہتا ہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے جو مکان اپنی بیوی کو ہبہ کیا ہے، چوں کہ اُس مکان  کا مکمل قبضہ اور تصرف نہیں دیا بلکہ   وہ خود بھی اُس مکان میں تا حیات   رہے تھے،تو  یہ ہبہ ( گفٹ) مكمل نہیں ہوا، اس لیے یہ مکان بدستور سائل کے والد کی ملکیت میں رہا ، اور دوسرا (نیا) مکان  چوں کہ اس  پراے مکان کی رقم سے خریدا گیا ہے ،لہٰذا   اس نئے مکان کو  بھی  قانونِ وراثت کے مطابق تمام ورثاء(جن میں باپ شریک بھائی اورباپ شریک بہن دونوں بھی شامل ہیں ) میں  تقسیم کرنا ضروری ہے۔

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(14/431،  فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘. 

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں