بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا بیٹے کے موجودگی میں نکاح کرانا


سوال

 ایک خاتون ہیں جو کافی نیک ہیں انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ ایک ایسی فیملی سے کیا جو تقویٰ میں ان کے برابر نہیں ہے، روزہ وغیرہ میں کوتاہی اور بھی کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ذکر نہیں کی جاسکتیں اور ان کی فیملی میں حرام کے مال کو برا نہیں سمجھا جاتا، جب لڑکے کا رشتہ آیا تو گھر والوں نے جن میں ان خاتون کی والدہ بھی تھیں ان کو منع کیا کہ جواب نہ دیں، لیکن اب انہوں نے بغیر مشورہ لیے ہاں کر دیا جس میں نہ بیٹے کی رائے لی نہ کچھ، جب بیٹوں نے اور والدہ نے استفسار کیا اور خفگی دکھائی تو انہوں نے کہا کہ میں نے استخارہ کیا اور میری بیٹی نے بھی،تو میں نے ہاں کر دی،ان خاتون کی والدہ اور خاتون کے بڑے بیٹے اور سب رشتہ دار اس فیصلے کو صحیح نہیں دیکھتے کیونکہ اس خاندان کی اخلاقی اعتبار سے شہرت اچھی نہیں، اور کیونکہ وہ خاتون ہیں اور دوسرے شہر میں رہتی ہیں اس لیے ان کو زمینی حقائق کا بھی علم نہیں، تو اب ایسی صورت میں جس میں رشتہ دار اور خصوصاً والدہ کی مرضی کے خلاف جا کر رشتہ کیا گیا اور کہا گیا کہ استخارہ ٹھیک آیا ہے تو کیا یہ فیصلہ درست ہے؟ استخارہ کے بعد اب آگے کوئی مسائل نہیں آئیں گے؟ اور جو فیصلہ بادی النظر میں غلط لگ رہا سب کو، کیا ان کو چپ ہو جانا چاہیے؟ اور دوسرا کہ بغیر صحیح طریقے سے زمینی حقائق جانے اور والدہ اور بھائی سے اور بیٹوں سے مشورہ کے، صرف استخارہ سے فیصلہ درست ہے؟ نوٹ خاتون بیوہ ہیں تو مشورہ کے لیے بیٹے اور بھائی ہیں۔

جواب

 واضح رہے کہ رشتہ ایسی جگہ کرائیں کہ جس پر سب کا اتفاق ہو،اگر ایسا ممکن نہ ہو اور کوئی رشتہ دستیاب ہو تو لڑکی کی رضامندی کو دیکھ لیاجائے اگر وہ راضی ہو تو رشتہ کرلیا جائے،اگر رشتہ ایسا ہے جس پر لڑکی اور اس کی والدہ راضی ہیں مگر بھائی راضی نہیں ہیں تو اگر رشتہ غیر کفو میں ہے تو بھائی کو ولی ہونے کی حیثیت سے اعتراض کا حق ہے۔یہ تمام گفتگو اس وقت ہے جب اس سے بھی بہتر رشتے دستیاب ہوں ،اگر اس سے بہتر رشتہ دستیاب نہ ہوں تو پھر اسی رشتے پر سب کو متفق ہوجانا چاہیے۔

استخارے کے متعلق جواب یہ ہے کہ ایک  تو وہ مستقبل کے متعلق ہوتا ہے اور مستقبل کا علم مستقبل آنے پر ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ استخارے کے ساتھ استشارے کا بھی  حکم ہے یعنی جہاں یہ حکم ہے کہ استخارہ کرکے اللہ تعالی سے طلب خیر کیاجائے وہاں یہ بھی حکم ہے کہ دین دار،تجرکار اور مخلص حضرات سے مشورہ کیا جائے۔ اس لیے بچی کو اوراس کی  والدہ کو قریبی اعزہ کی رائے کو بھی  اہمیت دینی چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (‌تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به (ويفتى) في غير الكفء."

(کتاب النکاح، باب الولی، ج:3۔ص: 56، ط: سعید)

ہدایہ میں ہے:

"وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما  دفعا لضرر العار عن أنفسهم."

(كتاب النكاح، باب في الأولياء و الأكفاء، 1/ 195، ط: دار إحياء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں