بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ ،بیوہ ، بیٹا اور بیٹی کی میراث


سوال

اگر کسی شخص کا انتقال اسکے ماں کی موجودگی میں ہو اور اس شخص کے پیچھے اسکی اہلیہ اورتین بہنیں اور بیٹی اور بیٹا ہو، اس انتقال شدہ شخص کے ترکہ کو ان حقداروں میں بغیر تقسیم کیۓ اس شخص کی ماں پوری جائیداد جو مردہ چھوڑکے جارہا اپنے پوتے یعنی اس شخص کے بیٹے کو دیدے تو کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مرحوم کی والدہ کا مرحوم کے ساری جائیداد کو مرحوم کے صرف ایک بیٹے کو دینا جائز نہیں بلکہ اس میں مرحوم کے باقی شرعی ورثاء کا بھی حق ہے  اور ہر وارث کو اس کا شرعی حق دینا ضروری ہے ، ترکہ کی شرعی تقسیم یہ ہے کہ   سب سے  پہلے  مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر   مرحوم  کے ذمہ  کوئی قرضہ ہو اس کو ادا کرنے کے بعد  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت ہو اس کو ترکہ کے ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد    بقیہ  کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو بہتر (۷۲) حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد مرحوم کی والدہ کو ۱۲ حصے، بیوہ کو ۹ حصے، بیٹے کو ۳۴ حصے، اور بیٹی کو ۱۷ حصے ملیں گے۔بہنیں اس صورت میں بھائی کے ترکہ میں حصہ دار نہیں ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں