بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی قضا نمازوں کا کفارہ


سوال

مرحوم والدین کی قضا نمازوں کا کفارہ اس کا قرآن اور حدیث میں کہاں حکم آیا ہے؟ اس کا حوالہ چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی بھی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادا کرنے سے وہ ادا ہو سکتی ہیں، چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو، البتہ فوت شدہ آدمی کے ذمہ واجب الادا  نمازوں کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے،   چنانچہ اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو  اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے  فی نماز  ایک فدیہ ادا کریں،  لیکن  ایک تہائی سے زائد  سے  فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔ ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔

جہاں تک اس کے حوالے کی بات ہے تو مرحوم کی فوت شدہ نمازوں کے فدیے کا صراحتًا نصوص میں ذکر نہیں ہے، البتہ مرحوم کے فوت شدہ روزوں کے فدیے کا ذکر احادیث میں موجود ہے، اسی پر قیاس کرکے نمازوں کے فدیے کا حکم فقہاءِ کرام نے بیان کیا ہے، اور امید ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ فوت شدہ روزوں کا فدیہ قبول فرماکر اس کی تلافی فرمادیں گے، اسی طرح فوت شدہ نمازوں کا فدیہ بھی قبول فرماکر تلافی فرمادیں گے۔

سنن الترمذي (3/ 96):

"عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم: قال من مات و عليه صيام شهر فليطعم عنه مكان كلّ يوم مسكين."

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (4/ 254):

"أنّ ابن عمر كان إذا سئل عن الرجل يموت وعليه صوم من رمضان أو نذر يقول: لايصوم أحد عن أحد ولكن تصدقوا عنه من ماله للصوم، لكلّ يوم مسكينًا."

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 439):

"ولا" يصح "أن يصلي" أحد "عنه"؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "لايصوم أحد عن أحد ولايصلي أحد عن أحد ولكن يطعم عنه."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 597):

"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں