آج کل کچھ علاقوں میں ناراضگی کی بناء پر والدہ یا رضاعی والدہ اپنے بیٹے کو یہ کہہ دیتی ہے کہ میں آپ کو اپنا دودھ نہیں بخشتی ، سوال یہ ہے کہ آیا یہ کہنا درست ہے ؟ اور اس دودھ کو بخشوانے کا کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ بعض لوگوں کے عرف میں دودھ بخشنے کا لفظ اطاعت وفرمانبرداری کے لیے استعمال ہوتا ہے؛ چناں چہ جس کے متعلق اثبات میں یہ جملہ کہا جائے اسے فرمانبردار سمجھا جاتا ہے اور جس کے متعلق نفی میں یہ کہا جائے اسے نا فرمان سمجھا جاتا ہے، یہاں تک مشہور کر دیا گیا ہے کہ مرنے سے پہلے دودھ بخشوا لینا چاہیے، ستم بالائے ستم اگر کوئی دودھ پیتا بچہ مر جائے تو اس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ میں نے اس کو دودھ بخش دیا، اس طرح کے جملوں کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد".
(كتاب الصلح، باب: إذا الصطلحوا على صلح جور فهو مردود، 370/1، قديمي)
فتاوی شامی میں ہے:
"بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما".
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب: البدعة خمسة أقسام، 560/1-561، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408101414
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن