بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ/ شوہر/ دو بیٹوں/ دو بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

 میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ہم دو بہنیں دو بھائی ہیں ،ایک بہن شادی شدہ ہے اور باقی سب غیر شادی شدہ ہیں ،ہمارے  والد حیات ہیں اور امی کی والدہ اور بہن بھائی بھی  حیات ہیں، والد کا یہ حال ہے کہ نہ امی کی زندگی میں کوئی خرچہ اٹھاتے تھے نہ اب  اولاد کا کوئی خیال رکھتے ہیں، امی کا جو تھوڑا بہت سامان ہے وہ اب کس طرح اور کن کن لوگوں میں تقسیم ہوگا اور کون کون سا سامان تقسیم ہوتا ہے ؟ اس میں  کتنے حصے بنیں گے؟  وراثت صرف شوہر اور اولاد میں تقسیم ہوگی  یا مرحومہ کے بہن ،بھائی اور والدہ میں بھی تقسیم ہوگی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میںمرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو سب سے پہلے کل جائیداد میں سے قرضہ ادا کیا جائے، پھر اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد  مرحومہ کہ کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو    کل 72      حصوں میں  تقسیم کرکے مرحومہ کے شوہر کو 18 حصے، ان کی والدہ کو 12 حصے، اور ان کے ہر ایک بیٹےکو  14حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔ یعنی مرحومہ کے شوہر کو  کل ترکہ کا 25 فیصد، مرحومہ کی والدہ کو 16.66فیصد، ان کے ہر ایک بیٹے کو  19.44 فیصد اور ہر بیٹی کو  9.72 فیصد حصے ملیں گے۔

مرحومہ کے انتقال کے وقت مرحومہ کی ملکیت میں جو کچھ بھی تھا،چاہے وہ جس صورت میں  بھی ہو، وہ سب مرحومہ کا ترکہ کہلائے گا اور مذکورہ بالا ضابطہ کے مطابق مرحومہ کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والد کے ذمہ نہیں رہتا ،  جب کہ  بیٹیوں کا نفقہ شادی ہو جانے تک ہر حال میں والد کے ذمے ہے، چاہے وہ بالغ ہوں یا نابالغ ، شادی ہوجانے کے بعد ان کا نفقہ بھی باپ پر لازم نہیں، لہٰذا بیٹے  اگر بالغ اور  کمانے کے قابل ہو گئے ہیں تو  ان کے لیے والد  سے خرچہ کا مطالبہ کرنا ہی جائز نہیں  اور  جس صورت میں والد پر نفقہ واجب ہو، تو  بھی ادب اور تہذیب کے ساتھ  اخراجات لینے  چاہییں، لیکن جس صورت میں والد پر نفقہ ہی واجب نہیں ہے اس صورت میں ان سے نفقے کا مطالبہ کرنا اور ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کو الزام دینا جائز نہیں، بہرحال مرحومہ کے ترکہ میں سے ان کے شوہر یعنی آپ کے والد کو مذکورہ حصہ ملے گا،  چاہے وہ مرحومہ اور اولاد کا نفقہ ادا کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، البتہ بیوی یا اولاد کا نفقہ واجب ہونے کی صورت میں ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے۔

باقی مذکورہ صورت میں مرحومہ  کی اولاد موجود ہونے کی وجہ سے مرحومہ کے بہن بھائیوں  کو حصہ نہیں ملے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 612):

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولاينافيه جمعه على أطفال أيضاً كما جمع إمام على أئمة أيضاً فافهم.... (قوله: كأنثى مطلقاً) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة ... (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں