بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ سے قرض لینے کے بعد والدہ کا انتقال ہوگیا تو قرض کا کیا حکم ہوگا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنے ایک کاروبار کے لیے اپنی والدہ سے آٹھ لاکھ روپے قرض لیے تھے،  مگر میرا وہ کاروبار ختم ہوگیا اور اب میں بے روز گار ہوں ، میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ والدہ زندگی میں مجھ سے اس قرض کی واپسی کا  کہتی رہتی  تھیں  مجھے اتنی وسعت نہیں ہوئی  کہ میں ان کا قرض ادا کرپاتا ۔و الدہ نے غصہ کی وجہ سے مجھے اپنے گھر سے بھی نکال دیا تھا۔ میں ابھی بھی بے روزگار ہوں ۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد اس قرض کی ادائیگی مجھ پر لازم ہے یا نہیں؟

میرے پاس ابھی وسعت نہیں ہے،  لیکن میرا ارادہ ابھی بھی ہے کہ میں جیسی مجھے وسعت ہوئی تو میں ادا کروں گا ۔ کیا تاخیر کی وجہ سے میں شرعًا گناہ گا رہوں گا؟

نیز یہ بھی واضح بتائیں کہ یہ کس کو دینا ضروری ہوگا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل پر والدہ کے انتقال کے بعد بھی آٹھ لاکھ روپے قرض کی ادائیگی واجب ہے اور والدہ کے انتقال کی وجہ سے سائل بری الذمہ نہیں ہوا ۔ سائل پر واجب ہے کہ وہ والدہ کے ورثاء کویہ قرض لوٹائے البتہ  چوں کہ سائل خود بھی وارث ہے تو جس تناسب سے سائل اپنی والدہ مرحومہ کے مال کا  وارث ہےاس قدر رقم کے بقدر  قرض سائل سے ساقط ہوجائے گا باقی رقم ورثاء کو ادا کرنا لازم ہے۔

نیز  اگر سائل واقعۃً قرض ادا کرنے سے عاجز ہے  اور ادا کرنے کی نیت بھی ہے تو عند اللہ گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ سائل کو چاہیے کہ بھر پور کوشش کرے اور ہر ممکنہ حلال ذریعہ کو استعمال کرے  اور اپنے اخراجات کو قابو کرنے کی کوشش کرے اور جو بچ جائے اس سے قرض کی واپسی شروع کردے۔ اس کے ساتھ ساتھ  اس دعا

"اَللّٰهُمَّ إِنِيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالحُزنِ، وَأعُوذِ بِكَ مِنَ العَجزِ وَالكَسلِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنَ البُخلِ وَالجُبنِ وَأعُوذُ بِكَ مِن ‌غَلبَةِ ‌الدَينِ وَقَهرِ الرِجَال."

کا اہتمام کرے۔ اللہ سے امید ہے کہ اللہ جلد قرض کی ادائیگی کی کوئی سبیل کردیں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال الفقيه - رحمه الله تعالى -: لا بأس بأن يستدين الرجل إذا كانت له حاجة لا بد منها و هو يريد قضاءها و لو استدان دينًا و قصد أن لايقضيه فهو آكل السحت، كذا في القنية. رجل مات و عليه قرض ذكر الناطفي نرجو أن لايكون مؤاخذًا في دار الآخرة إذا كان في نيته قضاء الدين، كذا في خزانة المفتين."

(کتاب  الکراہیۃ ، باب سابع و عشرون ج نمبر 5 ص نمبر 366،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں