بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی حالت میں قضاء ہونے والی نمازوں کے فدیہ دینے کی اگر والدہ نے وصیت کی ہو تو اس کی ادائیگی کا حکم


سوال

میری والدہ محترمہ دو دن پہلے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی،  فوت ہونے سے پہلے وہ بہت علیل تھی،  تقریبا دو ماہ کی نمازیں انہوں نے ادا نہیں کی ، انہوں نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میری نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے برائے مہربانی وضاحت فرما دیں اس سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے اور ان کی ایک دن کی نمازوں کا فدیہ کتنا بنتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو  اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے  فی نماز  ایک فدیہ ادا کریں،  لیکن  ایک تہائی سے زائد  سے  فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، البتہ تہائی سے زیادہ مال میں   سب ورثاء اپنی رضامندی سے ادا کرنا چاہے تو کر سکتے ہیں  اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔ ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں والدہ کی علالت کے دوران اگر ان کی عقل قائم تھیں اور ہوش وحواس  بحال تھے اور نمازوں کی فرضیت وغیرہ کو سمجھ سکتی تھی اور کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا لیٹ کر یا کم ازکم اشارہ کے ساتھ نماز پڑ ھ سکتی تھیں، لیکن  دو ماہ کی نمازیں نہ پڑھ سکیں ، تو اس صورت میں اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق ہرنماز کے بدلے میں فدیہ دیاجائےگا۔

اور اگر بیماری کے دوران والدہ کی عقل قائم  نہیں تھیں یا ہوش وحواس   بحال نہیں تھے یا   نمازوں کی فرضیت وغیرہ کو سمجھتی ہی نہیں تھیں  یا کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا لیٹ کر یا کم ازکم اشارہ کے ساتھ نماز پڑ ھنے پرقادر نہیں  تھیں اور اسی بیماری کی حالت میں ان کی وفات ہوئی ہو، تو پھر  اس صورت میں ان دنوں میں قضا ہونے والی نمازیں ان کے حق میں ساقط شمار ہوں گی،  جس کی وجہ سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔  

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ولا" يصح "أن يصلي" أحد "عنه"؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "لايصوم أحد عن أحد ولايصلي أحد عن أحد ولكن يطعم عنه."

(كتاب الصلاة، فصل في إسقاط الصلاة والصوم، ص: 439، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
وفي الرد: (قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(رد المحتار، كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج: 2، ص: 72، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں