بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ نے دوسرے ملک ملاقات کے لیے آنے سے منع کر دیا تو جانا چاہیے یا نہیں؟


سوال

 ایک شخص پاکستان میں رہتا ہے اور اس کے والدین کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں ، ملاقات کو 5 سال ہو گئے ہیں، کچھ عرصہ پہلے والد کی طبیعت ناساز تھی اب ٹھیک ہیں الحمدللہ ، 90 سال سے زیادہ عمر ہے ، یہ شخص اپنے والدین سے ملنے جانا چاہتا ہے لیکن والدہ نے حکماً آنے سے منع کیا ہے اور یہ منع کرنا کسی ناراضگی کی وجہ سے نہیں ہے اور  یہ شخص بھی  جانتا ہے کہ اگر میں گیا تو ایسا نہیں ہے کہ وہ اچانک دیکھ کر خوش ہو جائیں گی بلکہ وہ اصولوں کی پکی ہیں،  اب معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا یہ شخص جائے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری اولاد پر فرض ہے، اور متعدد آیات و احادیث میں اولاد کو والدین سے حسنِ سلوک  کا حکم دیا گیا ہے،قرآن مجید میں ہے:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ﴿23 وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا﴿24(سورۃ الاسراء23-24)

ترجمہ:اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔

اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔(بیان القرآن)

 والدین کے بڑھاپے میں ان کی خدمت کرنا اولاد پر لازم ہے اور اسی میں ان کی سعادت ہے، لہٰذامذکورہ صورت میں سائل کے مطابق جب اس کی والدہ اسے ملاقات کے لیے آنے سے روک رہی ہیں، اور یہ کسی ناراضگی کی بنا پر نہیں ہے، تو سائل کو چاہیے کہ انہیں خوش اسلوبی سے سمجھائے ، اوراجازت لے کر اپنے والدین سے ملاقات کے لیے چلا جائے۔ تاہم اگر سائل کا غالب گمان یہ ہو کہ اگر وہ ان سے ملاقات کے لیے جائے گا تو والدہ کی ناراضگی  کا اندیشہ ہے تو کچھ عرصہ رک جانے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس دوران اپنی والدہ کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کرے۔

المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے:

" وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس"، رواه عبد الله بن عمرو - رضي الله عنه -.

وفي رواية أنس: "وشهادة الزور" بدل: "اليمين الغموس".

قوله: "الكبائر: الإشراك بالله"... ويجب على الولد ‌خدمة ‌الوالدين بقدر ما يطيق، ويجب عليه نفقتهما وكسوتهما إن كانا فقيرين، إن كان يقدر على نفقتهما وكسوتهما."

(کتاب الإيمان، باب الكبائر و علامات النفاق، ج:، ص:137، ط: دار النوادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں