بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جُمادى الأولى 1446ھ 04 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کے سونے کے زیورات کی زکوۃ والدہ ادا کریں گی یا کوئی بیٹا دے گا؟


سوال

 میری والدہ کے پاس تقریباً72گرام سونا (Gold)جیولری کی شکل میں موجود ہے جس کی مالیت ابھی تقریباً 11,92,060/-بنتی ہے، اور اس کے علاوہ اُن کے پاس تقریباً30000/-روپے نقد موجود ہیں، میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور میری والدہ گھریلو خاتون ہیں،  ہم تین بھائی ہیں، والدہ ہم دو بھائیوں کے ساتھ رہتی ہیں،مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میری والدہ کی سونے کی زکوٰۃ دینی ہوگی؟ اگر دینی ہوگی تو والدہ ادا کریں گی یاہم بھائیوں میں سے کوئی اُن کی طرف سے ادا کرے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ کے پاس جو سونے کے  زیوارت اور نقد رقم ہے ،تو چوں کہ یہ زیورات اور نقد رقم والدہ ہی کی ملکیت ہیں، لہذا  ان کی زکوۃ سائل کی والدہ پر ہی لازم ہے،سائل اور اس کے بھائیوں پر اپنی والدہ کے زیورات کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

نیز سائل کی والدہ کی ملکیت میں سونے کے زیورات کے ساتھ نقد رقم بھی موجو دہے ،لہذا  زکوۃ واجب ہونے کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہے،چونکہ دونوں کو ملانے سے انکی مالیت چاندی کے نصاب سے بھی زیادہ ہےتو سائل کی والدہ پر اس کا ڈھائی فیصد زکوۃ لازم ہوگی۔

البتہ عام طور پر  چوں کہ عورتیں  گھر کے کام کاج سنبھالتی ہیں، کمانے کے لیے نہیں نکلتیں،  کمانے کے لیے مرد نکلتے ہیں، اور یہی تقاضائے فطرت بھی ہے، اس  لیے عموماً مرد عورتوں  کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر  دیتے ہیں،لہذا اگر سائل کی والدہ کے پاس رقم موجود نہ ہو اور سائل یا اس کا کوئی بھائی  ان کی جانب سے  ان کی اجازت کے ساتھ  زکوۃ ادا کرے تو یہ بھی درست ہے،بلکہ اخلاقاً ادا کردینی چاہیے، لیکن  اگر سائل اور اس کے بھائی اپنی والدہ کے زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اور والدہ کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو،تو ایسی صورت میں  والدہ پر لازم ہے کہ  اپنے  زیورات  کا کچھ حصہ بیچ کر یا کسی سے قرض لے کر اپنے زیورات کی زکوۃ ادا کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد۔"

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:259، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:267، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ولو تصدق عن غيره بغير أمره فإن تصدق بمال نفسه جازت الصدقة عن نفسه ولاتجوز عن غيره وإن أجازه ورضي به أما عدم الجواز عن غيره فلعدم التمليك منه إذ لا ملك له في المؤدى ولايملكه بالإجازة فلاتقع الصدقة عنه وتقع عن المتصدق؛ لأن التصدق وجد نفاذًا عليه، وإن تصدق بمال المتصدق عنه وقف على إجازته فإن أجاز والمال قائم جاز عن الزكاة وإن كان المال هالكًا جاز عن التطوع ولم يجز عن الزكاة؛ لأنه لما تصدق عنه بغير أمره وهلك المال صار بدله دينا في ذمته فلو جاز ذلك عن الزكاة كان أداء الدين عن الغير وأنه لايجوز والله أعلم".

(کتاب الزکوۃ، فصل ركن الزكاة، ج:2، ص:41، ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

" فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا ... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة."

(کتاب الزکوۃ، فصل الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة، ج:2، ص:19، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكوة، الباب الأول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولذا لو امر غيره بالدفع عنه جاز."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:270، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں