بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کو ’’ جس لڑکی سے میرا نکاح کرو گی تو وہ مجھ پر طلاق ہوگی ‘‘ کہنے کا حکم


سوال

زید نے والدہ سے ناراضی کی وجہ سے کہا کہ جس لڑکی سے میرا نکاح کرو گی تو  وہ مجھ  پر طلاق ہوگی،  کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں زید کے اپنی والدہ کو یہ کہنے کے بعد کہ ’’ جس لڑکی سے میرا نکاح کرو گی تو وہ مجھ پر طلاق ہوگی ‘‘  اگر زید کی والدہ نے زید کا نکاح کسی بھی لڑکی سے کرایا تو زید کے نکاح کو قبول کرتے ہی اس طلاق پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، البتہ اگر زید کی والدہ زید کا نکاح نہ کروائے، بلکہ زید خود براہِ راست اپنے نکاح کا ایجاب و قبول کرے یا والدہ کے علاوہ کوئی اور (والد وغیرہ) زید کا نکاح کروادے تو اس صورت میں شرط پوری نہ ہونے  کی  وجہ سے  اس لڑکی  پر  طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الفتاوى الهندية (1/ 420):

’’ إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق وكذا إذا قال: إذا أو متى وسواء خص مصرًا أو قبيلةً أو وقتًا أو لم يخص وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقًا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكًا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج كالإضافة إلى الملك فإن قال لأجنبية: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم نكحها فدخلت الدار لم تطلق، كذا في الكافي.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں