بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی زندگی میں ان کے مکان کی تقسیم کا مسئلہ


سوال

میرے والد صاحب نے ایک گھر بنایا اور کہا کہ یہ میں نے مہر میں اپنی بیوی (یعنی میری امی) کو دیا۔ کچھ سالوں بعد ہم نے وہ گھر بیچا اور میرے والد نے 6 لاکھ روپے بلڈر کو دیکر دوسرا گھر لیا۔ اس گھر کی قیمت 12 لاکھ تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نہیں دے سکتا، تم دیکر والدہ کے نام کروالو (یعنی میں نے 6 لاکھ دیے) لیکن ہماری کوئی بات نہیں ہوئی کہ گھر بکے گا تو میرا اس میں حصہ ہوگا یا نہیں۔ والد صاحب کی وفات ہوگئی ہے، گھر والدہ کے نام پر ہے۔ کچھ سالوں بعد والدہ نے گھر مجھے گفٹ کیا اور کہا کہ یہ تم لوگ آپس میں تقسیم کرلینا۔ والدہ ابھی حیات ہیں اور ہم یہ کام ان کے سامنے کرنا چاہ رہے ہیں۔ گھر کی قیمت بڑھ کر ایک کروڑ ہوچکی ہے۔ رہنمائی فرمائیں کہ کیسے تقسیم ہوگا؟ میں 50 لاکھ پر بھائی بہنوں کو حصہ دوں یا پورے ایک کروڑ  پر؟

جواب

صورت مسئولہ میں آپ نے والد صاحب کو گھر خریدنے کے لیے جو 6 لاکھ روپے دیے تھے، اگر قرض یا شرکت کی وضاحت کے بغیر دیے تھے (جیسا کہ سوال سے ظاہر ہوتا ہے) تو وہ آپ کی طرف سے والد صاحب پر احسان تھا جس کا آپ کو ثواب ملے گا، تاہم آپ کا اس گھر میں حصہ( شراکت )  نہیں ہے۔ باقی اس گھر کی آدھی رقم کے بقدر والد نے (آپ سے پیسے لیکر) والدہ کو اگر گفٹ دیا تھا اور بعد ازاں پورا مکان ہی سائل کی والدہ کو صراحت  کے ساتھ مکمل قبضہ کے ساتھ ہبہ (گفٹ) کر دیا تھا تو ایسی صورت میں یہ پورا مکان والدہ کا ہوگیا تھا۔

پھر جب آپ کی والدہ نے آپ کو یہ کہہ کر گفٹ کیا کہ آپس میں تقسیم کرلینا، تووالدہ کی طرف سے یہ گھر تمام اولاد کے لیے ہبہ ہے، اور ایک سے زائد لوگوں کو  قابل تقسیم گھر ہبہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ہر ایک کا حصہ متعین کرکے اسے اس کی جگہ دی جائے، صرف زبانی طور پر ہبہ کردینے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا، شرعی اصطلاح میں اسے 'ہبۃ المشاع' کہتے ہیں، لہذا ایسا ہبہ، ہبۃ المشاع ہونے کی وجہ سے مکمل نہیں ہوا اور اس گھر کی مالک اب بھی والدہ ہی ہے۔

اولاد میں مکان کی تقسیم کے معاملے میں  واضح ہو کہ  اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

" وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وتتم الهبة (بالقبض) ...... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعاً به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين".

(5/ 690، سعید)

و فیه ايضاّ :

"(قوله: بعد أن يقسم) ويشترط في صحة هبة المشاع الذي لايحتملها أن يكون قدراً معلوماً".

(5/ 692، سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں