بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی وفات کے بعد ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا


سوال

میری ماں وفات پا چکی ہیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کر سکتا ہوں ؟اور یہ مجھے کب ادا کرنا پڑے گا؟

جواب

 اگر آپ کی والدہ نے اپنی زندگی میں اپنا صدقہ فطر ادانہیں کیا ، اور   انتقال کے وقت ادائیگی کی وصیت کی تھی ،تو  ان کے متروکہ مال کے ایک تہائی سے ان کے فطرہ کو ادا کیا جائے گا،اور اگر ایک تہائی  سے ان کا فطرہ ادا نہ ہوسکے تو ان کے جو عاقل ورثاء ہیں ان کے مال میں  ان کی اجازت سے  والدہ کا آپ کی والدہ کا صدقہ فطر ادا کیا جائے گا،اور اگر وہ اجازت نہ یں ،یا اجازت دینے کے اہل نہ ہوں تو پھر ادائیگی نہیں کی جاسکتی۔

اور اگر آپ کی والدہ کے ذمے  صدقہ فطر  لازم نہیں تھا ،ویسے ہی آپ تبرعًا ان کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ کر سکتے ہیں ، یہ صدقہ فطر نہیں کہلائے گا محض صدقہ ہوگا جس کا ان کو ان شاء اللہ اس کا ثوا ب  ملے گا۔

صدقہ فطر عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت  واجب ہوتا ہے،البتہ صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے،  اور عید الفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرلینا چاہیے، یہ بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے، عید کی نماز سے پہلے ادا نہیں کیا تو عید کی نماز کے بعد ادا کرنا ہوگا، لیکن اس سے ثواب میں کمی ہوگی، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔

واضح رہے کہ صدقہ فطر زندوں پر واجب ہوتا ہے مردوں پر واجب نہیں ہوتا۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :

"‌وإذا ‌مات ‌من ‌عليه ‌زكاة ‌أو ‌فطرة ‌أو ‌كفارة أو نذر أو حج أو صيام أو صلوات ولم يوص بذلك لم تؤخذ من تركته عندنا إلا أن يتبرع ورثته بذلك وهم من أهل التبرع فإن امتنعوا لم يجبروا عليه وإن أوصى بذلك يجوز وينفذ من ثلث ماله."

(كتاب الصوم ،ج:1،ص:135،ط:المطبعة الخيرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي ‌البحر: ‌من ‌صام ‌أو ‌صلى ‌أو ‌تصدق ‌وجعل ‌ثوابه ‌لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة."

(مطلب في زيارة القبور،ج:2،ص:243،ط:سعید)

بخاری شریف میں ہے:

"فكان ابن عمر رضي الله عنهما: يعطي التمر، فأعوز أهل المدينة من التمر، فأعطى شعيرا. ‌فكان ‌ابن ‌عمر: ‌يعطي ‌عن ‌الصغير ‌والكبير، حتى إن كان يعطي عن بني. وكان ابن عمر رضي الله عنهما: يعطيها الذين يقبلونها، وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين."

(باب صدقة الفطر علي الحر والمملوك،ج:2،ص:549،ط:دار ابن کثیر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں