بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی پچپن سالوں کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کا طریقہ


سوال

ہماری والدہ مرحومہ کا انتقال ہوگیا ہے، جن کی کل عمر 68برس تھی، اب ہم ان کی 55 برس کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہتے ہیں۔ 

آپ حضرات سے گزارش ہے، ان سالوں کے فدیے کی مکمل قیمت اور طریقہ اداء بیان فرمادیں، روزوں اور نمازوں کے فدیے کی مکمل قیمت الگ الگ کتنی بنے گی؟

جواب

واضح رہے کہ ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار(گندم کے اعتبار سے پونے دوکلو گندم  یا اس کی  بازاری قیمت )ہے، اسی طرح ایک نماز کا فدیہ  بھی ایک صدقہ فطر کے برابر ہے،  اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں، تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے چھ ہوئے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ جن کی کل عمر 68  سال تھی، اور سائل ان کی طرف سےان کی پوری زندگی کے روزوں اور نمازوں کا فدیہ اد اکرنا چاہتا ہے،تو ایسی صورت میں سائل اپنی والدہ کی  55  سالوں  کا فدیہ  اس طرح ادا کرے، کہ  ہر سال کے  تیس (یعنی کل  55سالوں کے1650)روزوں کا فدیہ اور انگریزی سال کے حساب سے  ہر سال کے تین سو پیسٹھ دنوں کے چھ (یعنی کل 55 سالوں کے 120450) نمازوں کا فدیہ فقراء و مساکین پر صدقہ کرے، اور فدیہ اگر رقم کی صورت میں ادا کیا جائے، تو ادائیگی کے وقت بازار کی متوسط گندم کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔

 اگر مرحومہ والدہ نے  اپنی قضانمازوں اور روزوں کے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی، تو اس صورت میں اس کے ترکے کے ایک  تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائےگی، اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو فبھا، اگر مکمل ادا نہ ہو، تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر مرحومہ کے تمام عاقل بالغ ورثاء اجتماعی یا انفرادی طور پر ادا کردیں گے تو میت پر احسان ہوگا۔

اور اگر مرحومہ نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تھی،  تو شرعاً ورثاء پران کی نمازوں اور روزوں  کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء  از خود باہمی رضامندی سے یاآپ(سائل) اپنی جانب سے ان کی نمازوں،روزوں کا فدیہ  ادا کردیں گے تو والدہ پر احسان ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: ’’فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه‘‘. وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(کتاب الصلوٰۃ، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:72، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں