بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی اجازت کے بغیر ان کا مکان تقسیم کرنا


سوال

میری والدہ کو وراثت میں زمین ملی ، جس کو والدہ نے فروخت کرکے ایک گھر خریدا ہے ، جس کی اس وقت مالیت 51 لاکھ روپے تھی ، والدہ ابھی حیات ہیں ، ان کے تین بیٹےا ور دو بیٹیاں ہیں ،کیا ان کی زندگی میں اس مکان کی تقسیم کرسکتے ہیں ؟والدہ کی عمر پچاس سال ہے ۔ 

والدہ زندگی میں اپنا مکان تقسیم کرنا نہیں چاہتی،  میں (بیٹا) والدہ کی اجازت کے بغیر بہن بھائیوں میں ان کا مکان تقسیم کرسکتا ہوں ؟

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ  اپنی جائیداد میں ہر جائز تصرف  کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اسے اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے  ، یا اس کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں کوئی تصرف کیاجائے،نیز والدین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا ان کی جائیداد میں حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے ۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب  مذکورہ مکان سائل کی والدہ کی ملکیت ہے ، اور وہ اپنی زندگی میں اس مکان کو تقسیم  نہیں کرنا چاہتی ، تو اولاد کا والدہ سے اس مکان کا مطالبہ  کرنایا سائل کا والدہ کی مرضی کے بغیر اس مکان کو بہن بھائیوں میں تقسیم کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ۔

مشكاة المصابيح ميں هے:

"و عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية،ج:2،ص:889،ط:المكتب السلامي)

ترجمہ : اور حضرت  ابو حرہ رقاشی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" خبردار!کسی پر ظلم نہ کرنا، جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال اس کی  مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں۔"

فتاوی شامی میں ہے :

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب،مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط: سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ص27،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603102422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں