بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرنے کا حکم


سوال

میرے پاس کافی وقت  فارغ ہوتا ہے، میری والدہ بزرگ  ہیں، جب وہ گھر کے کام کرتی ہیں تو ان سے نماز رہ جاتی ہے، میں ان کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرتا ہوں ، جب کہ میرے والدین مجھے گھر کے کام کرنے سے منع کرتے ہیں، حالانکہ میری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں ان(اپنی والدہ) کی مدد کروں ؛ تاکہ وہ نماز پڑھنے کے لیے فارغ ہوجائے، اس معاملے میں میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  مردوں کے لیے گھر کے کام کرنے یاگھر کی عورتوں(والدہ،بیوی وغیرہ ) کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیوں کہ" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر والوں میں آکرکیا کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے تھے ۔"، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا گھر کے کاموں میں اپنی والدہ کی مدد کرنا جائز بل کہ مستحسن ہے، خصوصاً جب یہ نیت بھی ہو کہ وہ نماز کے لیے فارغ ہوکر اس اہم فریضہ کو آسانی سے ادا کرسکیں۔

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاﭤ(24)"

(سورہ بنی اسرائیل، آیت:23۔24)

"ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرواگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔"(از بیان القرآن)

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا ‌آدم قال: حدثنا ‌شعبة قال: حدثنا ‌الحكم، عن ‌إبراهيم، عن ‌الأسود قال: «سألت عائشة: ما كان النبي صلى الله عليه وسلم ‌يصنع ‌في ‌بيته؟ قالت: كان يكون في مهنة أهله، تعني خدمة أهله، فإذا حضرت الصلاة خرج إلى الصلاة."

‌‌(كتاب الأذان، باب من كان في حاجة أهله فأقيمت الصلاة فخرج، ج:1، ص:136، ط:دار طوق النجاة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں