اگر کوئی شخص بیوی کے غیر موجودگی میں گھر کے کسی اور معاملہ میں اپنی والدہ محترمہ کے (جب وہ اپنی اولاد کی وجہ سےدل سوزی میں مبتلا ہوئی اور) بیوی کے بارے میں غیرت دلانے پر اپنی بیوی کو کئی بار طلاق دے ( جو عین واقع کے وقت موجود بھی نہیں تھی ) کہ اُسے طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے ۔ کئی بار طلاق کہے پھر جب ان سے اس متعدد بار طلاق کا کہنے کی وجہ پوچھی جائے، کیوں ایسا کیا؟ تو وہ کہے کہ غیرت دلانے کی وجہ سے پتا ہی نہیں ہوا، جب کہ کوئی ارادہ بھی طلاق کا نہیں تھا تو اس مذکورہ بالائی مسئلہ میں حدیثِ رُکانہ کی طرح ایک کو تسلیم کیا جائے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی والدہ کے غیرے دلانے پر اپنی بیوی کو متعدد بار طلاق دے دی تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اگرچہ اس وقت بیوی موجود نہ ہو ، اور نہ ہی طلاق کا ارادہ ہو، اس لیے طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا طلاق کے الفاظ سننا ضروری نہیں ہے اور اسی طرح طلاق مذاق میں ، یا ڈرانے کے لیے یا کسی اور وجہ سے دی جائے بہر صورت وہ واقع ہوجاتی ہے۔
لہذامذکورہ شخص کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور نکاح ختم ہوگیا ہے، بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لیے رجوع کرنا یا تجدیدِ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ بیوی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."
(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد)
نیز ایک مجلس میں دی جانے والے تین طلاق، تین ہی شمار ہوتی ہیں ، تین طلاق کو ایک قرار دینا جائز نہیں ہے۔
اس کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201532
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن