بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کے گالم گلوچ پر اولاد کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟


سوال

بیٹی ہونے کی حیثیت سے گھر کے کام کرتی ہوں، مگر جب کبھی اگر تھکاوٹ ہو تو انکار کر دیتی ہوں،ایسی صورتِ حال میں والدہ لعن طعن اور گالم گلوچ کرتی ہیں، شریعت میں ایسے رویے پر ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

والدین کی اطاعت، فرماں برداری اور ان کی خدمت اولاد کی ذمہ داری ہے، خصوصًا جب وہ بوڑھے اور ضعیف ہوجائیں تو اولاد کی ذمہ داری مزید بڑھ  جاتی ہے، اس میں دنیا کی بھی سعادت اور آخرت کی بھی کامیابی ہے، والدین کے بڑھاپے میں ان کی ضرویات کا خیال اور ان کے مزاج کی رعایت، ان کی تکالیف کا مداوا، ان کی حاجتوں کی برآری کا اہتمام ان کے  ساتھ حُسنِ سلوک کا درجہ ہے جس کا حکم ربِّ دوجہاں نے دیا ہے،  لہذا آپ اس کا خوب اہتمام کریں۔

اگر کبھی آپ کو والدہ ڈانٹ بھی دیں یا برا بھلا بھی کہہ لیں تو  ان کی بات خندہ پیشانی سے سن لیں، انہیں کسی چیز کا  صراحتًا  انکار  نہ کریں، کبھی عذر  ہو تو ان کے سامنے پیش کردیں اور کبھی آپ کا رویہ بدلا ہو تو فوراً  ان سے معافی مانگ کر ان کی ضرورت پوری کردیں، وقتی طور پر اگر آپ کو پریشانی ہو بھی گئی تو والدہ کے  ساتھ حسن سلوک پر اللہ تعالیٰ جہاں آپ کو آخرت میں نوازیں گے،  وہی دنیا میں بھی اس کا بہتر بدلہ عطا  فرمائیں گے۔

نیز  والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد  کو گالم گلوچ نہ کریں، یہ ایک مسلمان کی شان نہیں ہے، بلکہ وہ بھی   اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں،انہیں ان کی جائز ضروریات  اور معاملات سے محروم نہ رکھیں، اور ان پر بے جا ظلم وزیادتی سے ہر طرح گریز کریں۔

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے امید ہے کہ اس میں آپ کے لیے تشفی بخش جواب موجود ہوگا،ملاحظہ ہو:

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘  یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

اگر والدین یہ کہیں کہ: ’’بیوی کو طلاق دے دو‘‘  تو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں۔ اگر والدین کہیں کہ: ’’بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو‘‘  تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں۔ البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ....اپنی اولاد کو مار ڈالو تو ...اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں...!"۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل 8/558)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں