بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا گھر، زیور اور سرٹیفکٹ بیٹی کو دے دینا اور بیٹے کو محروم رکھنا


سوال

میری والدہ کی ملکیت میں ایک  گھر ہے جو کہ خالی ہے، اس میں کوئی رہائش پذیر نہیں ہے،  والدہ نے  یہ گھر اپنی بیٹی کو گفٹ کیا ہے،  اور ان کے نام کردیا ہے، اس میں قبضہ وتصرف بھی بیٹی ہی کودیا ہے، اور نام کرنے کے بعد مجھے بتایا  تو میں نے  کہا جیسے آپ کی مرضی ہو، دوسرے نمبر پر والدہ کے کچھ زیورات ہیں لاکر میں،  بیٹی نے والدہ کی اجازت سے  وہ اپنے نام کرلیے ہیں،  اور والدہ نے  ان کو ملکیت کے طور پر دے دئیے تھے، اب قبضہ وتصرف بھی بیٹی کا ہے، تیسرے نمبر پر سرٹیفکٹ ہیں جو ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے لیے تھے، وہ  بھی والدہ نے بہن کے حوالہ کردئیے ہیں، والدہ کی اجازت سے بہن نے اپنے نام کردئیے ہیں، اور ان پر قبضہ وتصرف بھی بیٹی (سائل کی بہن)کا ہے۔

یہ سب چیزیں والدہ نے بیٹی کو دی ہیں، اور ان کو قبضہ وتصرف بھی دے دیا ہے،  جب میں والدہ سے حصہ مانگتا ہوں کہ مجھے بھی کچھ دیا جائے تو  والدہ دینے سے ٹال مٹول  کرتی ہیں، اور سب چیزوں پر اپنی بیٹی کو قبضہ دیا ہے، کیا ان کا یہ رویّہ درست ہے، اور کیا میں والدہ سے ان کی زندگی میں اپنا حصہ مانگ سکتا ہوں؟ اور شرعاً اس میں حصہ ہے؟ والدہ نے بہن یعنی اپنی بیٹی کو جو کچھ دیا ہے وہ بیٹی غیر شادی شدہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز   ترکہ/میراث  اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی کی موت کے بعد اس کے پیچھے رہ جائے، جب تک کوئی شخص حیات ہو اس کا مال   ”ترکہ“ نہیں ہوتا،  اور  اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ  جب تک حیات ہیں، اپنی ملکیتی جائیداد کی  وہی تنِ تنہا مالک ہیں، ان کی جائیداد میں کسی اور کا حق وحصہ نہیں ہے، تاہم  اگر وہ  اپنی زندگی میں اپنی خوشی اور رضامندی  سے اپنی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو کرسکتی ہیں ،  اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه». وفي رواية......قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»"

)مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:

”حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں   رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ…… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“

)مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط؛ دارالاشاعت)

  اور صاحب جائیداد کی طرف سے  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اس کے بعد اگر  جائیداد بیوی کی ہو تو وہ شوہر کو چوتھے حصے کے بقدر اور شوہر کی ہو تو وہ بیوی کو آٹھویں حصہ کے بقدر دے کر بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعا غیر منصفانہ کہلائے گی، البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بناء پر  دوسروں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت ودینداری یا غریب ہونے کی بناء پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بناء پر اس کو  دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں  سائل کي  والدہ نے اپنا ملکیتی مکان   اپنی بیٹی كو گفٹ كرديا اور بيٹي  کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل قبضہ  بھی بیٹی کو دے دیا ہے ، اور یہ گفٹ کرتے وقت اس مکان میں ان کا کوئی تصرف نہیں تھا تو  شرعاً یہ ہبہ(گفٹ) مکمل ہوگیا ، اسی طرح والدہ نے اگر  اپنے زیورات مالک بناکر   بیٹی کو  دے دئیے  ، اور سرٹیفکٹ بھی مالک بناکر دے دئیے ہوں تو   یہ گفٹ  مکمل ہوگیا ہے اور  بیٹی ان چیزوں کی مالک ہوگئی، تاہم سائل کی والد ہ کا صرف  بیٹی کو دینا  اور سائل کو محروم رکھنا  ہرگز جائز نہیں  تھا ، شرعی اعتبار سے یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے،  اب اس کی تلافی کی صورت یہ ہے  بیٹے کو بھی  بیٹی کے حصہ کے بقدر دے دےتاکہ آخرت میں پریشانی نہ ہو، اور بیٹی  کو بھی  چاہیے کہ  اس قدر حصہ سائل کو دے دے   کہ سائل کا حصہ بھی اپنے بہن  کے برابر ہوجائے۔

یہ ملحوظ رہے کہ ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے  اگر منافع بخش سرٹیفکٹ لیے گئے  تو  اس کے طرح کے مروجہ سرٹیفکٹ سودی ہیں ، اس کو جلد از جلد واپس کرنا ضروری ہے، اس میں صرف اصل جمع کرائی ہوئی رقم  وصول کرنا جائز ہے، اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے،اضافی رقم شرعاً سود ہے۔

      شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لاحد  ان یاخذ  مال احد  بلا سبب شرعی."

(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیة)

       فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."

(5/696، کتاب الھبة، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے؛

"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له فيالدين."

 (7/288، کتاب الھبة، ط: رشیدیة)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، ط: رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں