بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا بڑے بیٹے کے لیے وصیت کرنا


سوال

 ہماری والدہ کا سونا تھا،انہوں نے اپنی زندگی میں ہم سے کافی دفعہ بولا تھاکہ اگر مجھےکچھ ہو جائے ،تو یہ سونا تمھارے  بڑے بھائی کا ہے،اس کو دےدینا،ہم نے ایسا کرتے ہوئےوہ سونا بڑے بھائی کو دے دیا، کیوں کہ  اس کی زکوٰۃ والدہ کی زندگی میں بھی بھائی ہی دیتےتھے،کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ  میں والدہ مرحومہ کے مذکورہ قول کے دو مطلب ہو سکتے ہیں:  ایک یہ کہ مذکورہ سوناسائلہ کے بڑے بھائی کی ملکیت تھی،اس نے والدہ کو صرف استعمال کے لیےیا والدہ کے پاس بطورِ امانت رکھوایا تھا،تو یہ بڑے بھائی کی ملکیت شمار ہوگا،اور اس کو دینا لازم ہوگا،دوسری صورت یہ ہے کہ مذکورہ سونا والدہ مرحومہ  کاتھا،اور والدہ مرحومہ مذکورہ سونا بڑے بیٹے کو وصیت کے طور پر دینا چاہتی تھی،تو اس صورت میں یہ وارث کے لیے وصیت ہے جو کہ شرعاً معتبر نہیں،البتہ اگر سب ورثاء عاقل ،بالغ ہوں،اور دلی خوشی ،و رضا مندی سے والدہ کی وصیت پوری کرنے پر راضی ہوں،تو بڑے بھائی کو دیا جاسکتا ہے،ورنہ میراث کے طور پر ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، ج:6 ص:655،656 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(كتاب الوصايا، الباب الأول في تفسير الوصية وشرط جوازها وحكمها، ج:6 ص:90 ط: رشیدیة)

فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ میں ہے: 

"ويروى عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة». ويعتبر كونه وارثا وقت الموت لا وقت الوصية."

(كتاب الوصايا، ج:3 ص:426 ط: دار الأرقم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں