بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا اجنبی سے ناجائز تعلق ہو تو بیٹے کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

میری والدہ کا ایک نامحرم اجنبی شخص سے تعلق ہے  اور اس شخص کا بھی میرے گھر میں آنا جانا  ہے، اور وہ ہم سب لوگوں کی غیر موجودگی میں بھی میرے گھر میری والدہ کے پاس آتا رہتا ہے۔ میرے والد وغیرہ کو بھی اس کی خبر ہے ، لیکن وہ بھی کچھ نہیں کہتے۔ اور یہ سلسلہ تقریبًا 10/سال سے جاری  ہے۔ میں اس چیز کا سخت مخالف ہوں اور میں نے ہر طرح سے دونوں کو سمجھانے  کی کوشش کرلی،  حتی کہ اس آدمی کو مارا بھی  ہے، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی باز نہیں آیا۔ بالآخر کل اچانک میں بغیر آواز کے گھر میں داخل ہوا تو میں  نے ان دونوں کو ایک ہی بستر پر ایک دوسرے سے چمٹا ہوا دیکھ لیا۔ اس وقت مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور غصہ و غیرت کا تقاضہ ہوا کہ دونوں کو ہی جان سے ماردوں۔ لیکن کنٹرول کیا اور زبانی غصہ کرتے ہوئے اس آدمی کو اور اپنی والدہ کو بہت گالیاں دیں، اور اب میں ان سے بات چیت نہیں کر رہا ہوں۔ اس تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ میرا اپنی والدہ کو ایسے موقع پر گالیاں دینا صحیح ہے یا غلط؟ اور اگر اس وقت میں ان دونوں کو جان سے مار دیتا تو کیا مجھے گناہ ملتا یا نہیں؟ اور ایسی ناجائز حرکت کی وجہ سے میرا اپنی والدہ سے گفتگو بند کرنا جائز   ہے یا نہیں؟ اور اب مجھے کیا کرنا  چاہیے؟

جواب

 والدین   اگر  کسی گناہ میں مبتلا ہوں تو حکمت  وبصیرت کے ساتھ ان کو اس سے بچانا بھی ضروری ہے؛  تاکہ ان کی دنیا اور آخرت برباد نہ ہو، اس لیے مذکورہ صورت حال میں ایسا طریقہ  اختیار کرنا چاہیے کہ  والدہ کے بے حرمتی اور تذلیل بھی نہ ہو اور والدہ اس گناہ سے بھی بچ جائے۔

 اس لیے  والدہ کو حکمت وبصیرت سے سمجھاتے رہیں اور اس شخص کو گھر سے دور رکھنے  کی ہر ممکن  کوشش کریں اور ایسی ترتیب بنائیں کہ وہ گھر کے قریب نہ آسکے، اس کے لیے کوئی بھی جائز تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے،  تاکہ اس ناجائز کام کا سد  باب  ہوسکے۔

باقی اگر  کوئی  شخص  اپنی بیوی، ماں، بہن، بیٹی یا اپنی کسی اور محرم عورت کو عین زنا کی حالت میں دیکھے  جب کہ زنا عورت کی مرضی سے ہورہاہو، اور  اس حالت میں زبانی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے وہ دونوں جدا نہ ہوں اور اسی حالت میں زانی  اور مزنیہ  دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو  قتل کردے تو  یہ قتل ہدر ہوگا،  قاتل پر کسی قسم کا ضمان واجب نہیں ہوگا۔

لیکن اگر بعد میں پتا چلا کہ کسی محرم عورت نے زنا کیا ہے  یا صرف زبانی کہنے سے دونوں جدا ہوسکتے تھے تو اس وقت قتل کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ شرعی طریقہ کار کے مطابق بحکمِ عدالت ان کو سزا دی  جائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: بما في البزازية وغيرها) أي كالخانية، ففيها: لو رأى رجلاً يزني بامرأته أو امرأة آخر وهو محصن فصاح به فلم يهرب و لم يمتنع عن الزنا حل له قتله، ولا قصاص عليه اهـ. 

  (قوله: فيحمل على المقيد) أي يحمل قول المنية: قتلهما جميعًا على ما إذا علم عدم الانزجار بصياح أو ضرب.

قلت: وقد ظهر لي في التوفيق وجه آخر وهو أن الشرط المذكور إنما هو فيما إذا وجد رجلاً مع امرأة لاتحل له قبل أن يزني بها فهذا لايحلّ قتله إذا علم أنه ينزجر بغير القتل سواء كانت أجنبيةً عن الواجد أو زوجةً له أو محرماً منه.
 أما إذا وجده يزني بها فله قتله مطلقًا ولقد قيد في المنية بقوله: "وهو يزني" وأطلق قوله: قتلهما جميعًا، وعليه فقول الخانية الذي قدمناه آنفًا: "فصاح به" غير قيد، ويدل عليه أيضًا عبارة المجتبى الآتية، ثم رأيت في جنايات الحاوي الزاهدي ما يؤيده أيضًا حيث قال: رجل رأى رجلاً مع امرأة يزني بها أو يقبلها أو يضمها إلى نفسه وهي مطاوعة فقتله أو قتلهما لا ضمان عليه ولايحرم من ميراثها إن أثبته بالبينة أو بالإقرار". (63/4ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قالوا: لكل مسلم إقامة التعزير حال مباشرة المعصية، وأما بعد المباشرة فليس ذلك لغير الحاكم، قال في القنية: رأى غيره على فاحشة موجبة للتعزير بغير المحتسب فللمحتسب أن يعزر المعزر إن عزره بعد الفراغ منها، كذا في البحر الرائق. سئل الهندواني - رحمه الله تعالى - عن رجل وجد مع امرأته رجلاً أيحل له قتله؟ قال: إن كان يعلم أنه ينزجر عن الزنا بالصياح والضرب بما دون السلاح لايحل، وإن علم أنه لاينزجر إلا بالقتل حل له القتل، وإن طاوعته المرأة حل له قتلها أيضًا، كذا في النهاية". (167/2 ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں