بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ، بیوہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم/ والدہ کا اپنی صواب دید پر ترکہ تقسیم کرنا


سوال

بیٹا مرگیا،  ایک بیوہ،  2  بیٹیاں اور  1 بیٹا چھوڑ گیا، اس مرنے  والے  کی ماں نے بیٹے  کی رقم  2000  پوتے کے نام کر دی،  رشتہ داروں کی مدد ا مداد سے 1000 ایک پوتی 1000 دوسری کو دی،  کچھ بیوہ کو دے دیا،  کیا ماں بیٹے کی میراث کی مالکن ہے؟  اور  اس کی مرضی  کی  تقسیم  شرعاً درست ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  ذکر  کردہ  تفصیل کے مطابق  مرحوم  کے  ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ  یہ  ہے  کہ  ترکہ میں سے اس کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو تو  اسے مرحوم کے کل  ترکہ میں سے ادا کرنے  کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی  جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک  تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکےباقی کل منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کو  96 حصوں میں تقسیم کرکے  12 حصے بیوہ کو، 16 حصے والدہ کو، 34 حصے بیٹے کو اور 17، 17 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

یعنی مثلًا  100 روپے میں سے مرحوم کی  بیوہ کو 12.50 روپے، مرحوم کی والدہ کو  16.66 روپے ، بیٹے کو  35.41 روپے اور ہر ایک بیٹی کو   17.70 روپے ملیں گے۔

مرحوم کی والدہ   کے لیے مرحوم کے ترکہ کی تقسیم مذکورہ فارمولہ کے مطابق کرنا ضروری ہے، ہاں اگر تقسیم کے بعد اپنے حصے میں سے،  یا اپنی ذاتی رقم میں سے ، یا لوگوں نے مرحوم کی والدہ کو   پوتا اور پوتیوں کی امداد کے لیے رقم دی ہو  تو اس رقم کو اپنی صواب دید  پر  پوتا، پوتیوں پر خرچ کرسکتی ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں