بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

والدہ،ایک بیوہ اور ایک بہن میں تقسیم میراث


سوال

میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے،ورثاء:ایک بیوہ، والدہ، اور ایک حقیقی بہن۔

ہماری کوئی اولاد نہیں ہے، شوہر کے ایک بڑے بھائی تھے جن  کا انتقال ان کی زندگی میں ہو گیا تھا،ان کے ورثاء یہ ہیں:دو بیٹے اورایک بیٹی۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ:

ورثاء میں وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟

کیا میرے شوہر کے بھائی کے بچوں کوبھی وراثت میں سے حصہ ملے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں مرحوم شوہر کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ شوہر کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد، بقیہ کل ترکہ کو 13 حصوں میں تقسیم کر کے چار حصے مرحوم کی والدہ کو ،تین حصے مرحوم کی بیوہ کو، اور چھ حصے مرحوم کی بہن کو ملیں گے ۔

صورت تقسیم یہ ہوگی :

میت(شوہر مرحوم): 13/12

بیوہوالدہبہن
346

یعنی فیصد کے اعتبار سے 30.76فیصد مرحوم کی والدہ کو، 23.07فیصد مرحوم کی بیوہ کو، اور 46.15 فیصد مرحوم کی بہن کو ملیں گے۔

مرحوم شوہر کے بڑے بھائی کے بچوں کو مرحوم کی وراثت سے حصہ نہیں ملے گا۔

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(والثلث للأم عند عدم الولد وولد الابن و) عدم (الاثنين من الإخوة والأخوات)"

(کتاب الفرائض، ج: 2، ص: 750، ط: دارالطباعة العامرۃ)

وفیہ ایضا:

"(وللزوجة) الربع (وإن) وصلية (تعددت عند عدمهما) أي الولد أو ولد الابن لقوله تعالى {ولهن الربع مما تركتم إن لم يكن لكم ولد} [النساء: 12]."

(کتاب الفرائض، ج: 2، ص: 750، ط: دارالطباعة العامرۃ)

وفیہ ایضا:

"(و) النصف (للأخت لأبوين وللأخت لأب عند عدمها) أي عدم الأخت لأبوين (إذا انفردن) عن إخوتهن."

(کتاب الفرائض، ج: 2، ص: 750، ط: دارالطباعة العامرۃ)

وفیہ ایضا:

"(والعصبة بنفسه ذكر) فإن الأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل لغيرها أو مع غيرها (ليس في نسبته إلى الميت أنثى)...(وهو يأخذ ما أبقته الفرائض وعند الانفراد) أي انفراده عن غيره في الوراثة (يحرز جميع المال) بجهة واحدة...(وأقربهم) أي أقرب العصبات (جزء الميت وهو الابن وابنه وإن) وصلية (سفل)...ثم أصله وهو الأب والجد الصحيح) أي أب الأب.(وإن) وصلية (علا)...(ثم جزء أبيه وهم الإخوة لأبوين أو) الإخوة (لأب ثم بنوهم وإن) وصلية (سفلوا)."

(کتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج: 2، ص:752،753، ط: دارالطباعة العامرۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں