بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ اگر صاحبِ استطاعت ہو تو اولاد پر اس کا خرچہ لازم ہوتاہے یا نہیں؟


سوال

میری والدہ زیادہ تر پاکستان میں میرے بھائی کے ساتھ رہتی ہیں اور وہ صرف تھوڑے عرصے کے لیے دبئی آتی ہیں۔ اور میں دبئی میں رہتاہوں اور میرابھائی پاکستان میں رہتاہے۔

1۔ تو کیا میں اپنی والدہ کے تمام اخراجات (جیسے ٹکٹ، ویزہ، میڈیکل وغیرہ) برداشت کروں یا دونوں بھائیوں کو برابر حصہ دیناچاہیے؟

2۔ میری والدہ پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیتی  ہیں، اور زیادہ عرصہ کے لیے دبئی نہیں آنا چاہتیں، تاہم میرا بھائی  مجھے سال میں 6 ماہ والدہ کو دبئی میں رکھنے پر  مجبور کررہاہے۔ کیا والدین کو ایساکرنے پر مجبور کرسکتے ہیں جووہ نہیں کرنا چاہتے؟

3۔ اگر میں اپنی والدہ کو دبئی بلانے پر ان کے تمام سفری اخراجات برداشت کرلوں، تب بھی وہ زیادہ دیر تک یہاں نہیں رہنا چاہتیں، کیا میں گناہ کررہاہوں؟

صرف آپ کی معلومات کےلیے، میں نے ہمیشہ اپنی والدہ سے کہاہے کہ وہ میرے ساتھ زیادہ عرصےتک رہیں اور میں نے  انہیں  کبھی نہیں کہاکہ انہیں نہیں رہنا چاہیے۔ چوں کہ  ان کی بہنیں پاکستان میں رہتی ہیں اور وہ ان کے بہت قریب  ہیں؛ اس لیے وہ ہیں رہنے کو ترجیح دیتی  ہیں۔

صرف آپ کی معلومات کے لیے، دونوں خاندان مالی طورپر مضبوط ہیں اور معیاری زندگی گزار رہے ہیں،  مزید یہ کہ پاکستان میں فیملی کے پاس ماں کی طرف سے دیاگیا ایک اپارٹمنٹ اور ایک پلاٹ ہے، جب کہ دبئی میں فیملی کرائے پر رہتی ہےاور ان کے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے، والدہ کے پاس ایک اپارٹمنٹ بھی ہے جس سے انہیں ہر ماہ کرایہ ملتاہے اور ایک پلاٹ زمین ہے۔

جواب

واضح رہے کہ دینِ اسلام نے والدین کےساتھ اچھا برتاؤکرنےکا   حکم دیاہےاور ان پر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چناں چہ ارشادِ ربانی ہے :

"وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا." (النساء، 36)

ترجمہ:  " اور تم اللہ تعالی کی عبادت اختیار کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرواور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو" 

 اس آیت میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا،اس کے بعد والدین کا حق ذکر فرمایا کہ اُن سے اچھا برتاؤ کرنا، پھر اس کے بعد رشتہ داروں، یتیموں،مسکینوں،مسافروں اور پڑوسیوں وغیرہ کا حق ذکر فرمایا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے حق کے بعد سب سے پہلا حق والدین کا ہے،یعنی حقوق العباد میں سب سے مقدم والدین کا حق ہے۔

اور سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا:

"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا." ( الإسراء، 23)

ترجمہ: "اور تیرے رب نے حکم کردیاہےکہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیاکرواگرتیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بوڑھاپےکو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی ہوں مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا" 

  حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میں ہجرت اور جہاد پر آپﷺ کی بیعت کرتا ہوں اور میں اس پر صرف اللہ تعالی سے اجر کا طلب گار ہوں،آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی موجود ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں دونوں زندہ ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم اللہ تعالی سے اجر کے طالب ہو ؟اس نے عرض کیا جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا اپنے ماں باپ کے پاس واپس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا والدین سے نیکی کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا۔

 حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔"

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"  جب مسلمان اپنے اہل پر کوئی خرچہ کرتا ہے اور نیت ثواب کی ہوتی ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔"

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ذلیل وخوارہو، وہ شخص ذلیل وخوارہو، وہ شخص ذلیل وخوارہو۔(تین مرتبہ یہ بددعافرمائی) عرض کیا گیا: کون یارسول اللہ ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کوبڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام نوویؒ فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کے بڑھاپے اورکمزوری کے زمانے میں ان کی خوب خدمت کی جائے اور ان کے مکمل اخراجات اٹھائے جائیں اور یہی چیزجنت میں دخول کاذریعہ ہے، ان کی خدمت اوراخراجات میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیناجنت سے محرومی کاذریعہ ہے۔

1۔ لہذا  والدین کا خرچہ اولاد پر اس وقت لازم ہوتاہے کہ جب والدین اپنا خرچہ نہ اٹھاسکتے ہوں،   تنگ دست ہو ں اور مالی اعتبار سے کمزور ہوں،  لیکن اگر  والدین کا ذریعہ معاش ہو اور وہ اپنا خرچہ خود اٹھاسکتے ہوں تو  اس صورت میں ان کا نفقہ اولاد پر لازم نہیں ہوتاہے، اس لیے صورتِ مسئولہ میں چوں کہ والدہ کا اپنا ذریعہ معاش موجود ہے اور وہ دبئی آنے کانے کا خرچہ خود اٹھا سکتی ہیں تو بیٹوں پر ان کا مذکورہ خرچہ لازم نہیں ہے،  لیکن نفقہ واجبہ کے علاوہ  اگر بیٹے   اپنی طرف سے بطورِ احسان کے خرچ کرناچاہے تو یہ ان کی اپنی اپنی صواب دید پر موقوف ہے اور اس خرچ کرنے پر ان کو دوہرا اجر ملےگا۔

2۔ والدین کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، جتنا ہوسکے ان کو خوش رکھنا چاہیے، اور ان کے وجود کو اپنے لیے غنیمت سمجھ کر ان کی خوب خدمت کرنی چاہیے، جہاں ان کو راحت ہو وہیں  پر ان کو سہولیات فراہم کرنی چاہییں،  لہذا  بیٹے کا زبردستی والدہ کو 6 ماہ پاکستان سے باہر دبئی میں دوسرے بیٹے کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔

3۔ اگر آپ(سائل) والدہ کو اپنے پاس کچھ دن کے لیے دبئی بلاتے ہیں اور ان کے تمام اخراجات بھی برداشت کرلیتے ہیں، تو اس پر آپ کو کوئی گناہ نہیں ملےگا ، بلکہ  اجر وثواب ملےگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌عبد الله بن عمرو ، قال: « جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستأذنه في الجهاد فقال: أحي والداك؟ قال: نعم قال: ففيهما فجاهد»."

(‌‌كتاب البر والصلة والآداب، ‌‌باب بر الوالدين وأيهما أحق به، ج: 3، ص: 1579، رقم: 2549، ط: بشري)

وفيه أيضاً:

"عن ‌عبد الله بن مسعود قال: « سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أي العمل أفضل؟ قال: الصلاة لوقتها، قال: قلت: ثم أي؟ قال: بر الوالدين، قال: قلت: ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله، فما تركت أستزيده إلا إرعاء عليه »."

(‌‌كتاب الإيمان، ‌‌باب بيان كون الإيمان بالله تعالى أفضل الأعمال، ج: 1، ص: 149، رقم: 85، ط: بشري)

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: 'الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة'. رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي."

(كتاب الزكاة، باب افضل الصدقة، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 299، رقم: 1939، ط: بشري)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « رغم أنف ثم رغم أنف ثم رغم أنف. قيل: من يا رسول الله؟ قال: من أدرك أبويه عند الكبر أحدهما أو كليهما، فلم يدخل الجنة»."

(‌‌كتاب البر والصلة والأداب، ‌‌باب تقديم بر الوالدين على التطوع بالصلاة وغيرها، ج: 3، ص: 1582، رقم: 2551، ط: بشري)

'شرح الطیبی'  میں ہے:

"قال الشيخ محيي الدين: معناه أن برهما عند كبرهما وضعفهما بالخدمة والنفقة وغير ذلك سبب لدخول الجنة، فمن فاته قصر في ذلك فاته دخول الجنة."

(‌‌كتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الأول، ج: 9، ص: 146، رقم: 4912، ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامية)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح... (النفقة لأصوله)... (الفقراء) ولو قادرين على الكسب.

وفي الرد: قوله الفقراء) قيد به؛ لأنه لا تجب نفقة الموسر إلا الزوجة (قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر."

(رد المحتار، ‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب النفقة، ج: 3، ص: 621۔623، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: و لأبويه وأجداده وجداته لو فقراء) أي تجب النفقة لهؤلاء... وشرط الفقر؛ لأنه لو كان ذا مال فإيجاب النفقة في ماله أولى من إيجابها في مال غيره... وأطلق في الابن ولم يقيده بالغنى مع أنه مقيد به لما في شرح الطحاوي ولا يجبر الابن على نفقة أبويه المعسرين إذا كان معسرا."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، نفقة الأبوين والأجداد والجدات، ج: 4، ص: 349،348، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں