بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ اگر چچا کے ساتھ قطع تعلق کا حکم دیں


سوال

 میرے والد (مرحوم) اور ددھیال کے درمیان شادی کے بعد رنجشیں چلی آ رہی تھی،جس کی وجہ سے تعلقات کبھی بہتر کبھی ناخوشگوارہوتے رہتے،وقت گزرتا گیا ہم لوگ کراچی آ گئے ،عرصہ بعد میرے والد کا انتقال ہو گیا ،میت ادھر دفنانے اور چچا کی طرف سے گاؤں میں دفنانے پر اختلافات کے بعد بالاٰخر ہم نے والد کو اس کو اس کے وصیت کے مطابق کراچی میں دفنا دیا ،میرے دو چچا گاؤں میں رہتے ہیں ،تقریبا چار سال بعد میرے چھوٹے چچا کا گاؤں میں انتقال ہو گیا ،جس کی اطلاع مجھے بڑے چچا نے دی، جو میرے سسر بھی ہیں اور کہا کہ میری بیٹی کو لے کر آ جا ،اس کے چچا کا انتقال ہو گیا ہے،جو کہ میرا بھی چچا تھا،جب میں گاؤں جانے لگا تو میری والدہ نے کہا کہ تم نہیں جاؤ، وہ تمہارے والد کے جنازے میں نہیں تھا ،تم بھی اپنے والد (مرحوم) پر غیرت کر کے نہیں جاؤ، اس بحث کے بعد بلاٰ خر میں بیوی کو لے کر گاؤں چلا گیا ، اس واقعہ کے بعد والدہ مجھ سے ناراض ہے کہ آپ نے اپنے والد پر غیرت نہیں کی ۔

اس ساری تفصیل کے بعد میرے عمل اور والدہ کے طرزِ عمل پر دین اسلام کی روشنی میں مفصل وضاحت فرما ئیں، نیز میرے والد مرحوم کے رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح سلوک رکھا جائے،جو میرے والد مرحوم کے لیے باعث راحت ہو؟

جواب

واضح رہے کہ اسلام حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ والدین کی فرمانبرداری  کی تاکید کی ہے ،لیکن ان سب کے باوجود حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ تمام مخلوق کے حقوق کی ادائیگی پر اللہ تعالی  کی اطاعت مقدم ہے ،حدیث میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق."

"آپﷺنے فرمایا : کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ایسے کام میں جس میں خالق کی نافرمانی لازم آئے۔"             

(مصنف ابن ابی شیبہ،كتاب السير،في إمام السرية يأمرهم بالمعصية من قال: لا طاعة له، ج6،ص545،رقم:33717،ط:دار التاج)  

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کی والدہ کا سائل  اور اس کی بیوی کو اپنے  چچا  کے جنازے میں غیرت کے نام پر منع کرنا غیر شرعی حکم ہے اور سائل کا آپسی نزاع کو ختم کرتے ہوئے ،صلہ رحمی کے  خاطر چچا کے جنازہ و تعزیت میں بیوی کے ہمراہ جانا باعث ثواب ہے ،البتہ والدہ کو بھی سمجھا بجھا کر راضی کرلینا چاہیے،نیز والد کے انتقال کے بعد بھی اپنے والد کے اعزہ کے ساتھ حسن سلو ک کا رویہ رکھے ،سابقہ رنجشوں کو فراموش کیا جائے ،حدیث میں ہے :

" عن أبي بردة قال قدمت المدينة فأتاني عبد الله بن عمر فقال أتدري لم أتيتك قال قلت لا قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "‌من ‌أحب ‌أن ‌يصل أباه في قبره فليصل إخوان أبيه بعده" وإنه كان بين أبي عمر وبين أبيك إخاء وود فأحببت أن أصل ذاك."

"ترجمہ:حضرت ابو بردۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ گیا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے،وہ کہنے لگے معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس کیوں آیا ہوں ؟،میں نے کہا نہیں ،فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :جو شخص اپنے والد کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرنا چاہے اسے چاہیے کہ  والد کے بعداپنے والد کے بھائیوں(دوستوں) ساتھ  صلہ رحمی کرے،اور میرے والد عمر اور تمہارے والد بھائی چارگی اور محبت تھی ،پس میں نے چاہا کہ میں اس تعلق کو جوڑوں۔"

(صحیح ابن حبان ،‌‌ذكر البيان بأن بر المرء بإخوان أبيه،ج1،ص514،رقم:777،ط:دار ابن حزم)

احکام القران لجصاص میں ہے:

"مثل قوله صلى الله عليه وسلم: "‌لا ‌طاعة ‌لمخلوق ‌في ‌معصية ‌الخالق". وهذا يدل على أنه إنما تجب عليه طاعة الأبوين فيما يحل ويجوز، وأنه لا يجوز له أن يطيعهما في معصية الله تعالى; لأن الله قد أمره بإقامة الشهادة عليهما مع كراهتهما لذلك."

(سورۃ النساء،اٰیة ١٣٥،ج2،ص357،ط:دار الكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح میں ہے:

"(وعن جبير بن مطعم) : مر ذكره (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يدخل الجنة قاطع ) أي: للرحم أو للطريق."

(باب البر والصلة، ج:9، ص:142، ط:مكتبه حنيفيه)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(عن معاذ) - رضي الله عنه - (قال: أوصاني رسول الله - صلى الله عليه وسلم -) أي أمرني (بعشر كلمات) بعشرة أحكام من الأوامر والنواهي لأعمل بها وأعلمها الناس (قال: (لا تشرك بالله شيئا).......(ولا تعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ ‌لا ‌طاعة ‌لمخلوق في معصية الخالق."

(كتاب الإيمان،باب الكبائر وعلامات النفاق،ج1،ص132،رقم:61،ط:دار الفكر

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں