بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد سے یہ کہنا کہ میری بیو کو کلما طلاق ہو


سوال

میری شادی تقریباً 4 سال پہلے ہوئی ہے، 1 بیٹا بھی ہے، شادی سے پہلے میرے تعلقات والد کے ساتھ ناخوش گوار تھے، شادی سے پہلے  ایک دفعہ میں نے والد سے یوں کہا کہ "اگر آپ میری شادی کرادیں  تو مجھ پر کلما ثلاثًا طلاق" ویسے یہ الفاظ پشتو زبان میں الگ تھے۔ پھر میری شادی ہوئی، میرے والد اور میری ماں نے مل کر رشتہ طے کیا، مہر  میں نے اپنے پیسوں سے ادا کیا، نکاح میں ایجاب وقبول بھی خود ہی کیا، اب شادی کے بعد صرف اس بنیاد پر وسوسے پیدا ہورہے ہیں  کہ میرے والد کے اس رشتہ طے کرنے کی وجہ سے میرا نکاح تو فاسد نہیں ہوا؟

جواب

واضح رہے کہ عربی زبان میں شرط کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ’’کلما‘‘ ہے، جس کا اردو میں ترجمہ ’’جب کبھی‘‘ سے کیا جاتا ہے، شریعتِ مطہرہ میں قسم کے اَحکام میں ’’کلما‘‘  کی قسم کا حکم یہ ہے کہ اس لفظ کے ساتھ جو شرط لگائی جائے گی، اس کی جزاء کے ایک  مرتبہ پائے جانے سے قسم ختم نہیں ہوگی، بلکہ جب جب بھی وہ شرط پائی جائے گی، محل ہونے کی صورت میں جزاء بھی پائی جائےگی۔ البتہ عوام میں جو  ’’کلما کی قسم‘‘  یا ’’کلما کی طلاق‘‘  رائج ہے، (یعنی  پورے الفاظِ قسم یا الفاظِ طلاق کی ادائیگی  کے بغیر صرف کلما کا عنوان ذکر کرنا) اس پر قسم یا طلاق کے شرعی اَحکام مرتب نہیں ہوتے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا اپنے والد سے یہ کہنا کہ  "اگر آپ میری شادی کرادیں  تو مجھ پر کلما ثلاثًا طلاق"، اور پھر والد کے رشتہ کروانے اور سائل کے شادی کرلینے سے ان الفاظ کی بنا پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ،وسوسے یا شک میں پڑنے کی حاجت نہیں ۔ 

البتہ اگر کوئی "کلما" کے الفاظ اپنی  جانب سے یوں ادا کرے  "کلّما تزوجت فهي طالق"، یعنی یہ  کہے کہ "جب جب میں شادی کروں تو میری بیوی کو طلاق"، تو ہر بار نکاح کرلینے سے طلاق واقع ہوتی ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار (3/ 247):

’’ قال في نور العين: الظاهر أنه لا يصح اليمين؛ لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان: أن من قال: جعلت كلما، أو علي كلما، أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل، ومن هذيانات العوام اهـ  فتأمل‘‘. 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 348):

"(قوله: إلا المضافة إلى الملك) أي في نحو: كلما تزوجت امرأةً فهي طالق ثلاثاً، فطلق امرأته ثلاثاً، ثم تزوجها، فإنها تطلق؛ لأن ما نجزه غير ما علقه، فإن المعلق طلاق ملك حادث فلايبطله تنجيز طلاق ملك قبله".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144112200787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں